اپنی کمپنی ٹوئٹر میں ضم کرنے والے معذور شخص کو مسک نے سر عام نکال دیا
ٹوئٹر کے ایک پروڈکٹ ڈیزائنر اپنے اکاؤنٹس بلاک کئے جانے کے بعد اس کمکش میں مبتلا ہیں کہ آیا ان کی ملازمت باقی ہے بھی یا نہیں؟
پینتالیس سالہ ہالی تھورلیفسن کا خیال تھا کہ وہ فروری کے آخر میں برطرف کیے گئے 200 ملازمین میں شامل تھے۔
ہالی نے 2021 میں اپنی کمپنی ٹوئٹر میں ضم کردی تھی، جس کی وجہ ان کی پٹھوں کی بگڑتی ہوئی حالت تھی۔
ڈیزائنر ہالی نے کل رات ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ نو دن گزرنے کے بعد بھی ٹوئٹر کے ہیومن ریسورسز (ایچ آر) کے سربراہ ’اس بات کی تصدیق نہیں کر سکے کہ آیا وہ ملازم ہیں بھی یا نہیں‘، جبکہ سی ای او ایلون مسک نے بھی ان کی ای میلز کا جواب نہیں دیا تھا۔
تھورلیفسسن نے ان کے ہی فورم ٹوئٹر پر مسک کو جواب طلب کیا، جس پر اُلٹا مسک نے انہیں 16.8 ملین لوگوں کے سامنے وضاحت کرنے کو کہا کہ وہ ٹویٹر پر کیا کام کر رہے ہیں۔
مسک نے دو ہنستے ہوئے ایموجیز کے ساتھ ٹوئٹر پر جاری اس گفتگو کو ختم کیا، جس کے بعد ڈیزائنر نے تصدیق کی کہ انہیں تب بتایا گیا کہ وہ اب ٹویٹر کیلئے کام نہیں کرتے۔
مسک نے بعد میں لکھا، ’حقیقت یہ ہے کہ اس آدمی نے (جو آزادانہ طور پر دولت مند ہے) نے کوئی کام نہیں کیا، اپنے عذر کے طور پر دعویٰ کیا کہ اس کے پاس ایک معذوری ہے جس نے اسے ٹائپ کرنے سے روکا ہے، پھر بھی وہ ایک طوفان برپا کر رہا تھا۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس کا بہت زیادہ احترام کرتا ہوں۔
’لیکن کیا اسے نوکری سے نکال دیا گیا؟ نہیں، اگر آپ پہلے سے کام نہیں کر رہے تو آپ کو نکالا کیسے جاسکتا ہے؟ ’
تھورلیفسن نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نے 2021 میں اپنی کمپنی Ueno کو فروخت کرنے کے بعد ٹوئٹر جوائن کیا تھا۔
انہوں نے کہا، ’میں نے کچھ وجوہات کی بنا پر کمپنی فروخت کرنے کا فیصلہ کیا لیکن ان میں سے ایک یہ ہے کہ مجھے پٹھوں میں ڈسٹروفی ہے اور میرا جسم آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر ناکارہ ہورہا ہے۔‘
’میرے پاس کام کرنے کے لئے چند سال باقی ہیں اس لیے یہ میری کمپنی کو سمیٹنے، اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو برسوں کے لیے مستحکم کرنے کا ایک طریقہ تھا۔‘
آئس لینڈ میں مقیم ڈیزائنر نے اپنے ٹویٹر تھریڈ میں زور دیا کہ وہ اس بارے میں سب سے زیادہ فکر مند ہیں کہ آیا مسک اپنے معاہدے کی وابستگی کو برقرار رکھیں گے اور ’انہیں اپنے معاہدے کے مطابق جو واجب الادا ہے اسے ادا کریں گے‘۔
معاملہ اس وقت شروع ہوا جب تھورلیفسن نے مسک کو ٹویٹ کیا کہ وہ نو دن سے اپنے کمپیوٹر تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہیں، اور ٹویٹر کا ایچ آر ڈیپارٹمنٹ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا کہ آیا وہ اب بھی کمپنی کے لیے کام کرتے ہیں یا نہیں۔
انہوں نے سابق سی ای او جیک ڈورسی اور ٹویٹر کے دو سرمایہ کاروں سے بھی مدد طلب کی۔
مسک نے چند گھنٹوں بعد جواب دیا کہ آپ کیا کام کر رہے ہیں؟
تھورلیفسن نے کہا کہ انہیں جواب دینے کے لیے رازداری کو توڑنا پڑے گا، جس پر مسک نے درگزر سے کام لیا۔
ڈیزائنر نے وضاحت کی کہ کس طرح انوہں نے ٹویٹر کے مختلف معاہدوں کو بچانے اور بند کرنے پر کام کیا، کمپنی کے سائز کو کم کرنے، لیول اپ ڈیزائن کے مطابق ڈھالنے کے لیے ڈیزائن کی مصنوعات کو ترجیح دی، ڈیزائن کے کرداروں کے لیے ہائرنگ مینیجر کے طور پر کام کیا، اور کمپنی کو نوجوان صارفین کی طرف لے جانے میں مدد کی۔
مسک نے ڈیزائنر کو معاہدے اور ڈیزائن کی ترجیحات کی تفصیلات پر بھی بات کرنے سے روک دیا۔ جب تھورلیفسن نے مثال دی تو مسک نے ہنستے ہوئے ایموجیز واپس پوسٹ کئے۔
اس کے فوراً بعد ہیلی نے اپنے ٹویٹر پیج پر تصدیق کی کہ انہیں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تبادلے کے بعد، ’ٹوئٹر کے ایچ آر کے سربراہ (جو پہلے دو بار مجھے یہ بتانے سے قاصر تھے کہ میرے پاس نوکری ہے یا نہیں) نے ای میل کیا اور کہا کہ میں اب ٹویٹر کا ملازم نہیں رہا۔
’انہوں نے کہا، جو بالکل ٹھیک ہے اور یہ ہر وقت ہوتا ہے۔ کمپنیاں لوگوں کو جانے دیتی ہیں، یہ ان کے حقوق میں شامل ہے۔‘
تھورلیفسن نے ٹویٹر پر اپنی ملازمت کھونے کے اپنے تجربے کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسکیولر ڈسٹروفی کا شکار ہیں اور وہ اس بات پر فکر مند ہیں کہ آیا کمپنی انہیں وہ رقم ادا کرے گی جو ان کے دعوے کے مطابق کمپنی پر واجب الادا ہے۔
’یہ میرا ریٹائرمنٹ فنڈ ہے، میری بیماری کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنی اور اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس کے دوسرے سرے پر دنیا کا امیر ترین آدمی ہونا، ممکنہ طور پر معاہدوں کے ساتھ کھڑے ہونے سے انکار کرنا میرے لیے قبول کرنا آسان نہیں ہے۔‘
Comments are closed on this story.