شکرقندی کے ٹکڑے نے 12 سال پُرانا قتل کیس حل کروادیا
جرائم سے تعلق کیسز کی تفتیش اتنا آسان کام نہیں کیونکہ انہیں سرانجام دینے والوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ تمام ثبوت مٹادیں اور ایسا تبھی ممکن ہوتا ہے جب قسمت ساتھ دے ورنہ دہائیوں پرانے جرائم میں بھی جیل جانا پڑسکتا ہے۔
امریکی پولیس نے بھی ایک ایسا ہی کارنامہ سرانجام دیتے ہوئے 12 سال قبل کیے گئے اندھے قتل کا معمہ حل کردیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قاتل کو اسی کی پھینکی گئی ایک شکرقندی کے ٹکڑے نے گرفتار کروایا جو اس نے فرش پرپھینک دیا تھا اور اس پر موجود ڈی این اے نے پولیس کو سُراغ لگانے میں مدد دی اور اس نے 40 سالہ ڈیوارس ہیمپٹن کو دھرلیا۔
قتل کا یہ واقعہ 27 فروری 2011 کو میساچیوسیٹس کے ایک گھرمیں پیش آیا تھا جہاں 31 سالہ ٹوڈ لیمپلے کو گولی مارکرقتل کیاتھا۔
پولیس کے مطابق متوفی ایک دیہاتی گھرمیں رہتا تھا اورواردات کے بعد اس کے بیڈ روم کی کھڑکی کے باہرگولیوں کے خول کےساتھ کچی شکرقندی ملی جسے ایک کنارے سے کاٹ کر ہموارکیے جانےکے بعد باقاعدہ سوراخ کرکے بندوق کی نال گھسائی گئی تھی، پولیس کے مطابق قاتل نے شکرقندی کو بطورسائلینسراستعمال کیا تھا۔
پولیس نے اس شکرقندی پر موجود ملزم کے ڈی این اے کو محفوظ کرلیا تھا۔
اس کے علاوہ تفتیش میں یہ نقطہ بھی اہم تھا کہ مبینہ قاتل نے واردات سے قبل اوربعد میں اپنے ساتھی کو12 کالز کیں۔ اس کے علاوہ ہیمپٹن نےایک کڑا پہنا ہوا تھا جس میں جی پی ایس نظام تھا ، ریکارڈ کےمطابق قتل کے وقت وہ ٹوڈ کے گھر کے اطراف میں ہی موجود تھا۔
اس کیس کا سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ مبینہ قاتل چند ہفتوں بعد ہی گرفتارکرلیا گیا تھا ہوگیا تھا لیکن وہ صحت جرم سے انکارکرتارہا، بالآخر 2016 میں پولیس نے اس کا تھوک جائے وقوع سے ملنے والے ڈی این اے سےمیچ کیا تو جرم کی تصدیق ہوگئی جس کے بعد اسے عدالت میں پیش کیا گیا۔
پولیس کی جانب سے گرفتاری کے باوجود اس اقدام میں اتنی تاخیر کی وجوہات نہیں بتائی گئی ہیں۔
Comments are closed on this story.