Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

چھیاسی سرکاری گاڑیوں والا امیر ترین، اور ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیوں والا کشکول بردار پاکستان

نعیم صادق نے اپنی ایک پوسٹ میں آج کے پاکستان کا نقشہ کھینچا۔
شائع 28 فروری 2023 07:35pm

دنیا میں ایک واحد ملک ہے جس کی ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیاں ایندھن سے نہیں چلتیں بلکہ غریب عوام کے خون پر دوڑتی ہیں۔

یہ کہنا ہے معروف مصنف نعیم صادق کا، جو ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے پیشے سے تعلق رکھتے ہیں اور سماجی مسائل پر لکھنے اور ان کی وکالت میں بھی مصروف رہتے ہیں۔

نعیم صادق نے اپنی ایک پوسٹ میں آج کے پاکستان کا نقشہ کھینچا۔

انہوں نے لکھا، آج پاکستان ’سیاسی اور مالی طور پر دیوالیہ، تباہی کی نہج پر بمشکل رکا ہوا، کھلم کھلا دنیا سے چھوٹی موٹی رقم کی بھیک مانگ رہا ہے، لیکن اس کے شکم سیر، رشوت خور، اور لاڈلی اشرافیہ کسی بھی آسائش کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔‘

نعیم صادق لکھتے ہیں کہ، ملک میں ’لوٹ مار اور (طاقت کے) غلط استعمال کا پیمانہ حیران کن ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ، ’اس سیزن میں سیاحت اور چھٹیاں منانے کے لیے شمالی علاقہ جات کا دورہ کرنے والی تمام گاڑیوں میں سے 20 فیصد سبز نمبر پلیٹ والی سرکاری گاڑیا تھیں۔‘

ان کے مطابق، ’گہری نظر رکھنے والے کسی بھی شخص کو شاپنگ مالز، پارکس اور ریستوراں میں (گاڑیوں کا) یہی تناسب ملے گا۔‘

نعیم صادق بتاتے ہیں کہ، ’ڈی ایچ اے کی ایک چھوٹی سی گلی میں گزشتہ 12 سالوں سے چھ سرکاری گاڑیاں کھڑی ہیں، جو سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی کے اہل خانہ، دوستوں اور عملے کے (غلط طور پر) زیرِ استعمال ہیں۔‘

’یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ (ان گاڑیوں کی) ایندھن، مرمت اور ڈرائیوروں کی کفالت پاکستان کے غریب عوام کرتے ہیں۔‘

نعیم صادق کہتے ہیں کہ، ’برطانیہ، جس نے ہم پر 200 سال حکومت کی، اس کے پاس 86 سرکاری گاڑیاں ہیں، ان میں سے کوئی بھی گاڑی کسی فرد کے لیے مختص نہیں کی گئی، سب کو مرکزی پول میں رکھا گیا ہے۔‘

انہوں نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت برطانوی حکومت سے ان گاڑیوں کی تعداد معلوم کرنے کی کوشش کی اور حیران کن طور پر انہیں یہ معلومات فرام بھی کردی گئیں۔

 (رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت حاصل کردہ منسلک معلومات دیکھیں)
(رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت حاصل کردہ منسلک معلومات دیکھیں)

انہوں نے بتایا کہ ’ایک (برطانوی) وزیر یا بیوروکریٹ دورے کے مقصد کی وضاحت کرتا ہے، ایک درخواست پر دستخط کرتا ہے، گاڑی کا استعمال کرتا ہے اور آخر میں فاصلے اور لاگت کے لیے دوبارہ دستخط کرتا ہے۔‘

اس کے برعکس نعیم صادق نے پاکستان کا احوال بیان کیا، جہاں ’27 فروری 2023 کو پاکستانی حکومت نے قومی اسمبلی میں 57 ملین روپے سے زیادہ کی نئی گاڑیاں خریدنے کے اپنے پاگل پن بھرے فعل کا بے شرمی سے انکشاف کیا۔‘

’جو بظاہر ”غیر ملکی مہمانوں“ کے لیے خریدی جانی تھیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’دسمبر 2022 میں، آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نے اپنے بیوروکریٹس اور عدلیہ کے لیے 872 ملین روپے کی لاگت سے 152 گاڑیوں کی خریداری کی تصدیق کی۔‘

’ستمبر 2022 میں، پنجاب حکومت نے اپنی کابینہ کے ارکان کے لیے 40 نئی گاڑیوں (300 ملین روپے کی لاگت) کی منظوری دی۔‘

’پیچھے نہ رہتے ہوئے، اکتوبر 2022 میں لاہور ہائی کورٹ نے اپنے جوڈیشل افسران کے لیے 308 نئی کاریں (500 ملین روپے کی لاگت سے) خریدیں۔‘

27 فروری کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ موجودہ حکومت نے 57.3 ملین روپے سے زائد کی لاگت سے کل آٹھ گاڑیاں خریدی ہیں۔

قومی اسمبلی کو سیکرٹری کابینہ ڈویژن نے فنانس ڈویژن کی منظوری کے بعد گاڑیوں کی خریداری کی منظوری دی۔

یہ آٹھ گاڑیاں ”پروٹوکول ڈیوٹی“ کے استعمال کے لیے خریدی گئی تھیں۔

ان گاڑیوں میں 29 سیٹوں والی ٹویوٹا ای آئی پی کوسٹر، 14 سیٹوں والی ٹویوٹا ہائی روف وین اور چھ 1800 سی سی ٹویوٹا کرولا کاریں شامل ہیں۔

نعیم صادق نے شاید طنزیہ سوال کیا کہ ’کیا پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ صرف پچھلے چھ مہینوں میں، پہلے سے موجود ڈیڑھ لاکھ گاڑیوں کے علاوہ حکومت نے اپنے پہلے سے بگڑے ہوئے لوگوں کی خوشنودی اور عیش و عشرت کے لیے 1.729 ارب روپے کی اضافی گاڑیاں خریدیں؟‘

ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ ’یہ صرف کرپشن نہیں ہے۔ یہ اپنے ہی حکمران طبقے کے ہاتھوں پہلے سے ڈوبتی ہوئی قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔‘

نعیم صادق نے سوال اٹھایا، ’کیا پاکستانی عوام اٹھ کھڑے ہوں گے اور متفقہ طور پر اس بے شرمی کے خاتمے کا مطالبہ کریں گے؟‘

دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف جون 2024 تک ہر قسم کی نئی گاڑی کی خریداری پر پابندی عائد کردی ہے، پہلے کی طرح تمام لگژری گاڑیوں کی نیلامی کی جائے گی اور جہاں ضرورت ہوگی وہاں ایک گاڑی وزراء کو دی جائے گی۔ تاہم اس پر عمل درآمد ہوتا فی الحال نظر نہیں آرہا۔

ڈان نیوز کیلئے لکھی گئی ایک تحریر میں انہوں نے لکھا کہ، ’کفایت شعاری کی اشد ضرورت میں، ہمیں ان بچتوں پر غور کرنا چاہیے جو صرف ایک سہولت واپس لے کر کی جا سکتی ہیں، سرکاری گاڑیاں۔‘

انہوں نے لکھا، ’یہ فرض کرتے ہوئے کہ ہر گاڑی ہر ماہ 200 لیٹر ایندھن استعمال کرتی ہے، تمام سرکاری گاڑیوں کو واپس لینے کا مطلب ہر ماہ 30 ملین لیٹر ایندھن کی فوری بچت ہوگی۔ یعنی فیول کی درآمد میں 22 ملین ڈالرز ماہانہ، یا 264 ملین ڈالرز سالانہ بچت۔‘

’حکومت یہ اور اس جیسی متعدد دیگر لاگت بچانے والی اسکیمیں کیوں نہیں اپنا رہی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ امیر لوگ اپنی آسائشوں کو ختم کرنا بالکل بھی پسند نہیں کرتے اور عام شہری یہ سب دیکھنے کے باوجود اپنا منہ بند رکھتے ہیں۔ یہ محب وطن لوگوں کے لیے آواز اٹھانے کا وقت ہے۔‘

انہوں نے تجویز پیش کی کہ، ’ہر سرکاری گاڑی کو واپس لیا جائے، فروخت کیا جائے اور کم از کم قانونی اجرت والے پاکستان کے ہر سینیٹیشن ورکر اور ہر پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈ کو یہ رقم ادا کی جائے۔‘

آخر میں نعیم صادق نے امید ظاہر کی کہ ’وہ دن آئے گا، پاکستان ہمیشہ کے لیے بدل جائے گا۔‘

Government Vehicles

Purchasing new Vehicles