Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

صدر کو پنجاب اور گورنر کو خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینے کا حکم

9 اپریل کوانتخابات ممکن نہیں تومشاورت سے پنجاب میں تاریخ بدلی جاسکتی ہے، فیصلہ
اپ ڈیٹ 01 مارچ 2023 01:49pm

سپریم کورٹ آف پاکستان نے خیبرپختونخوا اور پنجاب کی تحلیل شدہ اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز میں کرانے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت میں تمام فریقین کے دلائل کے بعد گزشتہ روز فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ 13 صفحات پر مشتمل محفوظ فیصلہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے پڑھ کر سنایا اور فیصلے کے مطابق خیبرپختونخوا اور پنجاب میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ کے 3 ججز نے درخواست گزار کے حق میں فیصلہ دیا۔ جب کہ جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے کی مخالفت کی۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین عام انتخابات سے متعلق وقت مقرر کرتا ہے، انتخابات دونوں صوبوں میں 90 روز میں ہونے ہیں۔ خیبر پختوانخوا میں الیکشن کروانے کی تاریخ مسترد کرتے ہیں، خیبرپختون میں انتخابات کی تاریخ گورنر جب کہ صدر مملکت الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرے۔

فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ ازخود نوٹس میں نے تین بنیادی سوالات کا جاٸزہ لیا گیا۔

پہلا سوال یہ ہے کہ انتخاب کی تاریخ کون دے گا؟۔

دوسرا سوال: آئینی کردار کون اور کب ادا کرے گا؟۔

تیسرا سوال: وفاقی وصوبائی حکومتوں کا انتخابات میں کیا کردار ہوگا؟

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو 90 دن میں انتخابات لازمی ہیں، اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہ کرے تو صدر مملکت تاریخ کا اعلان کر سکتا ہے، اور اگر گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ بھی گورنر ہی دے گا، خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینا گورنر کی ذمہ داری ہے، گورنر فیصلہ نہ کرے تو صدر تاریخ دے سکتا ہے، تاہم گورنر اپنے آئینی کردار فوری ادا کرنے کے پابند ہیں۔

فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو عام انتخابات میں تمام سہولیں قائم مقام حکومتیں فراہم کرنے کا پابند ہے، اور یہ وفاق کی ڈیوٹی بھی ہے کہ وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹیز الیکشن کمیشن کی مدد کرے گا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن یقینی بنائے کہ صدر کو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے، اور صدر الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے پنجاب میں فوری تاریخ کا اعلان کریں، اور ہر ممکن حد تک 90 دن میں انتخابات یقینی بنائے جائیں، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 اور 58 کو مدنظر رکھ کر تاریخ دی جائے، فیصلہ میں کہا گیا کہ 9 اپریل کوانتخابات ممکن نہیں تو مشاورت سے پنجاب میں تاریخ بدلی جاسکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ عام حالات میں پنجاب اسمبلی کے الیکشن 9 اپریل 2023 کو ہونے ہیں، الیکشن کی تاریخ صدر نے 20 فروری 2023 کو اپنے حکم میں دی، اور ہمیں بتایا گیا کہ 90 دن کی ڈیڈ لائن پر عمل نہیں ہوسکتا، شاید کچھ غلط فہمی کے باعث الیکشن کمیشن مشاورت کے لئے نہ آسکا۔

فیصلے میں حکم دیا کہ الیکشن کمیشن کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ صدر کو ایک تاریخ کی تجویز دے، الیکشن کمیشن وہ تاریخ دے جوکہ ڈیڈ لائن کے مطابق ہو، اگر ممکن نہ ہو تو الیکشن کمیشن ایک تاریخ دے جو ڈیڈ لائن سے دورنہ ہو، الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدر پنجاب الیکشن کا اعلان کرے گا۔

فیصلہ میں یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ گورنر خیبرپختونخوا بھی الیکشن کمیشن سے مشاورت کرے، اور گورنر خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہر صوبے کی آئینی حکومت کو یقینی بنانا وفاق کی ذمہ داری ہے، ان ذمہ داریوں میں صوبے میں الیکشن کو یقینی بنانا بھی شامل ہے، الیکشن کمیشن کے امور کی تکمیل کروانا بھی ایگزیکٹو اتھارٹیز کی ذمہ داری ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاق کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو تمام تر سہولیات فراہم کرے، الیکشن کمیشن کو افرادی قوت اور سیکیورٹی کی ضرورت ہوسکتی ہے، نگراں حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کی معاونت کریں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں ہائی کورٹ کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ ہائی کورٹس میں معاملہ از خود نوٹس کی وجہ سے تاخیرکا شکار ہوا، ہائی کورٹس زیرالتواء مقدمات کا جلد فیصلہ کریں۔

جسٹس منصورعلی شاہ اورجسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ میں سے دو ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندو خیل نے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے کہا ہے کہ آئین میں انتخابات کے لیے 60 اور 90 دن کاوقت دیا گیا ہے، ہائیکورٹس میں اسی طرح کا کیس زیر سماعت ہے، سپریم کورٹ ہائی کورٹ میں زیر التوا معاملے پر ازخود نوٹس نہیں لے سکتی۔

اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ منظورالہی اور بے نظیر کیس کے مطابق ازخود نوٹس لینا نہیں بنتا، لاہورہائیکورٹ پہلے ہی مقدمہ کا فیصلہ کرچکی ہے، از خود نوٹس لینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، از خود نوٹس جلد بازی میں لیا گیا، ازخود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کواستعمال نہیں کرنا چاہیے تھا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی گورنر کی منظوری پرتحلیل ہوتی ہے، جنرل انتخاب کا طریقہ کار مختلف ہے، انتخابات پر از خود نوٹس اور 90 روز میں انتخابات کرانے کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔

سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ کی صورتحال

سماعت سے قبل سپریم کورٹ کا کمرہ عدالت نمبر ایک کو کھول دیا گیا، کمرہ عدالت میں وکلاء اور سیاسی رہنماؤں اور میڈیا نمائندگان کی بڑی تعداد فیصلہ سننے کے لئے عدالت میں موجود تھی۔

علی ظفر، فیصل چوہدری، شعیب شاہین دیگرسینئر وکلاء، شیریں مزاری، شیخ رشید، فواد چوہدری بھی عدالت میں موجود رہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اسمبلیاں تحلیل کیے جانے کے بعد کے پی اور پنجاب دونوں صوبوں میں نگراں حکومت ہے۔

پی ٹی آئی کا دعویٰ تھا کہ عبوری سیٹ اپ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نئے انتخابات کی تاریخوں کا تعین نہیں کررہے ، صدر عارف علوی نے20 فروری کو اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو خط میں کہا تھا کہ دونوں اسمبلیوں کے عام انتخابات 9 اپریل کو ہوں گے۔

سپریم کورٹ کا 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا

ازخود نوٹس کی تیسری سماعت سے قبل سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا، جن میں سے 4 ججز جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس اطہر من اللہ نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا تھا۔

گزشتہ روز ازخود نوٹس کی چوتھی سماعت

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے پنجاب اور خیبرپختون خوا میں انتخابات میں تاخیر پراز خود نوٹس کیس کی چوتھی سماعت کی۔

لارجر بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔

سماعت کے آغاز پراٹارنی جنرل نے کہا کہ میں دلائل دینے کے لیے تیار ہوں، عدالتی حکم میں صدرسپریم کورٹ بارکا نام نکال دیاگیا تھا، سپریم کورٹ بارایسویشن کو ادارے کے طور پرجانتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکمنامہ نہیں ہوتا، جب ججز دستخط کردیں تو وہ حکم نامہ بنتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ 90 دن کا وقت اسمبلی تحلیل کے ساتھ شروع ہوجاتا ہے، اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ کیا نگران وزیراعلی الیکشن تاریخ دینے کی ایڈوائس گورنر کو دے سکتا ہے، یا گورنر نگراں حکومت کی ایڈوائس مسترد کرسکتا ہے۔

صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بارکے وکیل کے دلائل

صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بارکے وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ الیکشن کی تاریخ اورنگراں حکومت کا قیام ایک ساتھ ہوتا ہے، الیکشن کی تاریخ دینےکا اختیارگورنرکا ہے وزیراعلی کا نہیں۔

اٹارنی جنرل پاکستان نے اعتراض اٹھایا کہ عابد زبیری درخواست گزارکے وکیل ہیں بارکی نمائندگی نہیں کرسکتے۔

وکیل عابد زبیری نے اٹارنی جنرل کے اعتراض پر جواب دیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بارکا وکیل ہوں کسی سیاسی جماعت کا نہیں، سپریم کورٹ قرار دے چکی انتخابات 90 روز میں ہی ہونے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ صدر اور گورنرمعاملہ میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں، کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنرز اپنے طور پر دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نگران حکومت اور الیکشن کی تاریخ پر گورنر کسی کی ایڈوائس کا پابند نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ جہاں صوابدیدی اختیار ہو وہاں کسی ایڈوائس کی ضرورت نہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون کرے گا۔ عابد زبیری نے جواب دیا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکرٹری قانون نے جاری کیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آٸین واضح ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے پر گورنر تاریخ دے گا، گورنر کا تاریخ دینے کا اختیار دیگرمعمول کےعوامل سے مختلف ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا نگراں حکومت پر پابندی ہے کہ گورنر کو تاریخ تجویز کرنے کا نہیں کہہ سکتی، کیا گورنر کو اب بھی سمری نہیں بھجواٸی جاسکتی۔

عابد زبیری نے جواب دیا کہ نگران کابینہ نے آج تک ایڈواٸس نہیں دی تو اب کیا دے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نگران کابینہ کی ایڈواٸس کے اختیار پر اٹارنی جنرل کو بھی سنے گا۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سیف اللہ کیس میں 12ججز نے انتخاب کے عمل کولازمی قرار دیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ آرٹیکل 48 کہتا ہے کہ صدرکا ہر عمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہوگا، آیا موجودہ یا سابقہ حکومت انتخاب کے اعلان کا کہے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اس کے مطابق الیکشن کی تاریخ دینا ایڈوائس پر ہوگا۔

عابد زبیری نے کہا کہ آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے چار طریقے بتائے گئے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ نگران حکومت تو7 روز بعد بنتی ہے، آئین کی مختلف شقوں کی آپس میں ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پنجاب کے کیس میں گورنرنے نہیں وزارت قانون نے نوٹیفکیشن جاری کیا۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آرٹیکل 112 کے تحت عدم اعتماد ایڈوائس پر یا پھر 48 گھنٹوں میں حکومت ختم ہوسکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے مطابق آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے، اگر حکومت کی تاریخ کے حوالے سے ایڈوائس آجائے تو گورنر کیسے انکار کر سکتا ہے۔

عابد زبیری نے جواب دیا کہ نگران حکومت کا اختیار روزمرہ کے امور چلانا ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ صدر اور گورنر معاملہ میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں، کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنرز اپنے طور پر دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نگران حکومت کی تعیناتی اورالیکشن کی تاریخ پر گورنر کسی کی ایڈوائس کا پابند نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ جہاں صوابدیدی اختیار ہو وہاں کسی ایڈوائس کی ضرورت نہیں۔

چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون کرے گا۔ عابد زبیری نے جواب دیا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکرٹری قانون نے جاری کیا، صدر کو بعض اختیارات آئین اور الیکشن ایکٹ دیتا ہے، صدر الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے انتحابات کی تاریخ دے سکتا ہے، الیکشن ایکٹ آئین کے آرٹیکل 222 کی تحت بنایا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صدر نے الیکشن کی تاریخ دینے میں تاخیرکیوں کی، شاید صورتحال واضح نہ ہونے پر تاخیرہوئی ہو۔ عابد زبیری نے جواب دیا کہ صدر کے وکیل اس سوال کا بہتر جواب دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ گورنر انتحابات کی تاریخ کیلئے کس سے مشاورت کریں گے۔ عابد بیری نے جواب دیا کہ مشاورت الیکشن کمیشن سے ہی ہوسکتی ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ مشاورت میں وسائل اور حالات کا جائزہ لیا جائے گا، اگر الیکشن کمیشن معذوری ظاہر کرے تو کیا پھر بھی گورنر تاریخ دینے کا پابند ہے۔

عابد زبیری نے جواب دیا کہ گورنر ہر صورت تاریخ دینے کا پابند ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ گورنر کے پاس تاریح نہ دینے کا کوئی اختیارنہیں، گورنر الیکشن کمیشن کے انتطامات مدنظر رکھ کرتاریخ دے گا۔

جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ کیا صدر کابینہ کی ایڈوائس کے بغیر کوئی فیصلہ کر سکتا ہے۔ جسٹس جمال خان صدرکے اختیارات آئین میں واضح ہیں، صدر ہر کام کیلئے ایڈوائس کا پابند ہے۔

وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ صدر مملکت ہر کام کیلئے ایڈوائس کے پابند نہیں، صدر ہر وہ اختیار استعمال کر سکتے ہیں جو قانون میں دیا ہوا ہے، انتحابات کی تاریخ پر صدر اور گورنر صرف الیکشن کمیشن سے مشاورت کے پابند ہیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ صدر بطور سربراہ مملکت ایڈوائس پر ہی فیصلے کرسکتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ صدر کے اختیارات براہ راست آئین نے نہیں بتائے، آئین میں اختیارات نہیں تو پھر قانون کے تحت اقدام ہوگا، قانون بھی تو آئین کے تحت ہی ہوگا، گورنرجب بھی تاریخ دے گا 52 دنوں کا مارجن رکھا جائےگا۔

جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ اب تو آپ ہم سے پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کرنا کیا ہے، صدر مملکت کس قانون کے تحت چٹھیاں لکھ رہے ہیں۔

وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ صدر مملکت نے مشاورت کیلئے خط لکھے ہیں۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگرمان لیا قانون صدر کواجازت دیتا ہے پھر صدرایڈوائس کا پابند ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ نگران حکومت بھی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے فریق کو سن کر فیصلہ کریں گے صدر کو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں۔

اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں، دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صدر کے صوابدیدی اور ایڈوائس پر استعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اسمبلی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دے تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر نے الیکشن ایکٹ کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن 90 روز میں ہی ہونے چاہیے، الیکشن کو 90 روز سے آگے نہیں لے کر جانا چاہیے، انتخابات 90 روز سے آگئے کون لے کر جاسکتا ہے یہ الگ بات ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اگر 85 ویں دن الیکشن کا کہے تو الیکشن کمیشن 89 دن کا کہہ سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گورنر کو اسی وجہ سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا پابند کیا گیا ہے، صدر ہو یا گورنر سب ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں۔

اٹارنی جنرل کے دلائل

کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا گیا، جس کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل شروع کئے۔

اٹارنی جنرل شہزاد الہی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آزاد ادارہ اور ذمہ داری انتخابات کرانا ہے، گورنر پنجاب کا موقف ہے کہ الیکشن کمیشن خود تاریخ دے، گورنر نے انٹرا کورٹ اپیل میں مشاورت کی ضرورت نہ ہونے کو موقف اپنایا، الیکشن کمیشن کاموقف ہے کہ وہ ازخود تاریخ کیسے دے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سمجھ نہیں آتا ہائیکورٹ میں 14 دن کا وقت کیوں مانگا گیا، بطور اٹارنی جنرل آپ کیس شروع ہوتے ہی مکمل تیار تھے، تو کن نکات کی تیاری کیلئے وکلاء کو 14 دن درکار تھے، ہائیکورٹ میں تومقدمہ روزانہ کی بنیاد پر چلنا چاہیے تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ صدر نے الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 ون کا استعمال کیا ہے، اگر صدر کا اختیار نہیں تو سیکشن 57 ون غیر موثر ہے، اور اگر سیکشن 57 ون غیر موثر ہے تو اسے قانون سے نکال دیں۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میرے حساب سے الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اعلان کرنا ہے تو کسی مشاورت کی ضرورت نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئین اور قانون کی منشا کو سمجھیں، الیکشن کمیشن نے اعلان کرنا ہو تو صدر اور گورنر کا کردار کہاں جائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کا کردار ہر صورت میں اہم ہے، آپ کے مطابق الیکش کمیشن کا کردارحتمی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدرنے 20 فروری کو الیکشن کی تاریخ دی ہے، الیکشن پروگرام پرعمل کریں تو انتخابات 90 روز کی مدت میں ممکن نہیں، پنجاب میں 90 روز کی مدت 14 اپریل کو ہورہی ہے، صوبائی عام انتخابات 25 اپریل سے پہلے ممکن نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ نیت ہو تو راستہ نکل ہی جاتا ہے، الیکشن کمیشن اور متعلقہ حکام چاہتے تو حل نکال سکتے تھے، انتخابی مہم کیلئے قانون کے مطابق 28 دن درکار ہوتے ہیں، 90 روز کے اندر انتخابات کیلئے مہم کا وقت کم کیا جاسکتا ہے، الیکشن کمیشن با اختیارہے، کیا شیڈول میں تبدیلی کرسکتا ہے، آئین پرعملدرآمد ہر صورت میں ضروری ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دو یا چار دن اوپر ہونے پر آرٹیکل 254 لگ سکتا ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کی انتخابات کی تیاری کیا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا انتخابی مہم کا دورانیہ کم نہیں کیاجاسکتا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لیے وقت درکار ہوتا، انتخابی مہم کا دورانیہ دو ہفتے تک کیا جاسکتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئین پر عمل کرنا زیادہ ضروری ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اگر انتخابات 90 دن میں ہی ہونا لازمی ہیں تو 1988 کا الیکشن مشکوک ہوگا، 2008 کا الیکشن بھی مقررہ مدت کے بعد ہوا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلا سوال تو یہ ہے کہ تاریخ دے گا کون، الیکشن کمیشن کی تاریخ آنے پر ہی باقی بات ہوگی، اگر قانون میں تاریخ دینے کا معاملہ واضح ہوتا تو آج یہاں نہ کھڑے ہوتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن ایکٹ کا اختیار آئین سے بالا تر نہیں ہوسکتا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر کا اختیار الیکشن کمیشن سے متضاد نہیں ہوسکتا۔

اٹارنی جنرل سے سوال

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل قانون کا دفاع کرنے کے بجائے خلاف بول رہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سیکشن 57 ون ختم کر دیں توالیکشن ہو ہی نہیں سکے گا۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ موجودہ صورتحال میں الیکشن کمیشن انتخاب تاریخ کا اعلان کرے، الیکشن کمیشن کہہ سکتا ہے کہ 14 اپریل تک الیکشن ممکن نہیں، ٹھوس وجوہات کے ساتھ الیکشن کمیشن فیصلہ کرنے کا مجازہے، کسی نے ابھی تک تاریخ ہی نہیں دی سب کچھ ہوا میں ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کے پاس 90 روز سے تاخیر کا اختیار کہاں سے آیا، جھگڑا ہی سارا 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کا ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ٹھوس وجوہات پر آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ تاریخ کا اعلان کئے بغیر آرٹیکل 254 کا سہارا کیسے لئے جاسکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون واضح نہیں تو کیسے کہیں الیکشن کمیشن غلطی کر رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 90 دن سے تاخیر پر عدالت اجازت دے سکتی ہے۔ چیف جسٹس یہ نہ سمجھیں عدالت کسی غیر آئینی کام کی توسیع کرے گی، آرٹیکل 254 کا جہاں اطلاق بنتا ہوا وہاں کی کریں گی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے گورنرز کو تاریخیں تجویز کیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا نگران کابینہ گورنرز کو سمری بھجوا سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اور کابینہ دونوں آئین کی پابند ہیں، نگران کابینہ الیکشن کی تاریخ کیلئے سمری نہیں بھجوا سکتی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ اگر وزیراعظم ایڈوائس نہیں دیتے تو کب تک صدر نے انتظار کرنا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کئی قوانین گھنٹوں میں بنائے گئے آج بھی قانون بنا کر ذمہ داری دے دیتے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آج کی پارلیمنٹ کی قانون سازی پر ویسے ہی سوالات اٹھائے جاتے ہیں، الیکشن کمیشن کوانتخابات کی تاریخ دینی چاہیے، 90 روز کی مدت مکمل ہو رہی ہے، الیکشن کمیشن کی نیت پر شک نہیں کر رہا، لیکن الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری سے نہیں نکل سکتا۔

ازخود نوٹس میں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل شہریارسواتی کے دلائل شروع ہوگئے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ نے مشاورت کرکے تاریخ دینے کا حکم دیا تھا۔ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن نے گورنرسے ملاقات کی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا گورنرکے پی سے تاریخ کےلئے بات ہوئی ہے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ گورنر کے پی کو یاد دہانی کا خط بھی لکھا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پشاور ہائیکورٹ بھی نوٹس نوٹس ہی کررہی ہے۔ جسٹس محمد علی نے ریمارکس دیئے کہ تمام ادارے انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ گورنر کے پی نے مشاورت کیلئے تاریخ نہیں دی، گورنر نے دیگر اداروں کے ساتھ رجوع کرنے کا کہا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ گورنرخیبرپختونخواہ کے مطابق دیگر اداروں سے رجوع کرکے تاریخ کا تعین کیا جائے، انتخابات پر متحرک ہونا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن کا کام تھا مکمل تیاری کے ساتھ دوبارہ گورنرز سے رجوع کرتا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن مشاورت سے کیوں کترا رہا ہے، آپ نے انٹرا کورٹ اپیل کیوں دائرکی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ انٹرا کورٹ اپیل قانونی وجوہات کی بنیاد پر دائر کی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا گورنر سے مشاورت کیلئے آپ کو عدالتی حکم ضروری ہے، کیا الیکشن کمیشن خود سے گورنر کے پاس نہیں جاسکتا۔ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ کچھ رکاوٹیں بھی ہیں جن کا عدالت کوبتایا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے خود مشاورت کرنی ہے جوکرنا ہے کریں۔

وکیل گورنر خیبرپختون خوا

الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل ختم ہونے کے بعد گورنر خیبرپختونخواہ کے وکیل کو روسٹرم پر بلا لیا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ نگران حکومت گورنرنے بنائی ہےتوالیکشن کی تاریخ کیوں نہیں دینی۔ چیف جسسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گورنر اور الیکشن کمیشن سے پوچھیں گے کہ الیکشن کمیشن کی تاریخ کیوں نہیں آئی۔

ایڈوکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ کے پی کے حکومت مالی خسارے کا شکارہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت آئین کو دوبارہ تحریر نہیں کرسکتی۔

سیاسی جماعتوں کے وکیل فاروق ایچ نائیک

عدالت نے سیاسی جماعتوں کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو روسٹرم پر بلا لیا۔ فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ الیکشن ہوں گیے تو حصہ بنیں گے۔

فاروق ایچ نائیک نے پیپلزپارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی کی فل کورٹ کی درخواست واپس لے لی، اور مؤقف دیا کہ سیاسی جماعتوں نے مشترکہ ہدایت کی ہے کہ فل کورٹ کی درخواست نہیں چلائیں گے، چیف جسٹس نے پانچ رکنی لارجربنچ جو بنایا ہے وہی کیس سنے۔

فاروق ایچ نائیک نے موقف پیش کیا کہ اب ممکن نہیں کہ دو صوبوں میں الیکشن پہلے ہوں اور دو ماہ بعد باقی صوبوں میں، عدالت نے از خود نوٹس قبل از وقت لیا ہے، دو ہائی کورٹس میں انتخابات کا مقدمہ زیر التوا ہے، سپریم کورٹ ہائی کورٹس کوفیصلہ کرنے دے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اولین ترجیح آئین کے مطابق چلنا ہے، آئین کومنسوخ نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کی تاریخ تو دیں، ہوسکتا ہے حالات ٹھیک ہو جائیں فنڈز بھی آجائیں، نگران حکومت گورنر نے بنائی ہے، توالیکشن کی تاریخ کیوں نہیں دینی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر اور الیکشن کمیشن سے پوچھیں گے کہ الیکشن کی تاریخ کیوں نہیں آئی۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کے تحت عدالت سے کون رجوع کرسکتا ہے واضح نہیں، آئین کے مطابق گورنرکے پاس تاریح دینے کیلئے 90 دن کا وقت ہے، پنجاب اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی، گورنر خیبرپختونخوا کے پاس17 اپریل تک تاریخ دینے کا وقت ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اس حساب سے 90 دن میں انتحابات کیسے ہوں گے اور آرٹیکل 224 پرعمل کیسے ہو گا۔

فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ اس نقطہ پربعد میں آؤں گا، اسمبلی از خود تحلیل ہو تو آئین خاموش ہے تاریخ کون دے گا، پنجاب میں اسمبلی از خود تحلیل ہوئی گورنر نے نہیں کی۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ قانون کے اس حصے کا بتائیں جہاں لکھا ہے فنڈزکی کمی کی صورت میں کیا ہوگا۔ وکیل فاروق بائیک نے جواب دیا کہ معاشی صورتحال اور فنڈنگ پر قانون خاموش ہے۔

سیاسی جماعتوں کے وکیل فاروق ناٸیک نے کل تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف پیش کیا کہ وزیراعظم ،آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان سے مشاورت کرنی ہے، قیادت سے ہدایت لے کر آؤں گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا سارا کام اس مقدمہ کی وجہ سے رکا ہوا ہے، آج مقدمہ نمٹانا چاہتے ہیں۔ آٸین اور جمہوریت کی منشا یہی ہے کہ انتخابات 90 روز سے آگے نہ جاٸیں، ہم فیصلہ کر بھی دیں تو مقدمہ بازی چلتی رہے گی، جو عوام اورسیاسی جماعتوں کیلئے مہنگی ہوگی، عدالت صرف یہ اتھارٹی بنائے گی کہ انتخاب کی تاریخ کااعلان کون کرے گا۔

جسٹس منصور علی نے ریمارکس دیئے کہ جہموریت کی ہی بہتری ہے، کچھ الیکشن کمیشن آگے جائے کچھ آپ پیچھے آئیں، آرٹیکل 254 سب ٹھیک کر دے گا تاریخ تو آجائے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اصل طریقہ یہی ہے کہ ملکرفیصلہ کیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا کام رکا ہوا ہے اس لیے کل تک انتطار نہیں کرسکتے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آپس میں تاریخ طے کرنی یا نہیں فیصلہ کرکے عدالت کو بتائیں، عدالت صرف یہ بتا سکتی ہے کہ تاریخ کس نے دینی ہے۔

وکیل فاروق نائیک نے مؤقف پیش کیا کہ معلوم نہیں آصف زرداری کہاں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے فون پر ہی بات کرنی ہے ابھی کریں، پی ٹی آئی بھی اپنی قیادت سے بات کرے تاریخ کیا ہوسکتی ہے، عدالت صرف تاریخ دینے والے کا ہی بتا سکتی ہے۔

پی ٹی آئی کے فواد چوہدری نے کہا کہ یہ فیصلہ ہوگیا کہ الیکشن 90 دن سے آگے جاسکتا ہے تو مستقبل میں مشکل ہوگی، اسمبلی جاکر آئینی ترمیم کے لیے تیار ہیں، ایسی روایت نہیں ڈالنی چاہتے کہ الیکشن 90 دن سے آگے جائیں۔

عدالت نے سیاسی جماعتوں کے وکلا سے آج چار بجے تک رائے مانگ لی، اور سماعت میں چار بجے تک وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی لیکن پنجاب خیبر پختونخوا انتخابات کی تاریخ پر فریقین میں اتفاق نہ ہوسکا۔

ن لیگ کے وکیل نے عدالت میں استدعا کرتے ہوئے مؤقف پیش کیا کہ اتحادیوں کے درمیان مشاورت ہوئی ہے، مشاورت کیلئے مزید وقت درکار ہے، مناسب ہوگا عدالت کیس آگے بڑھائے۔

سیاسی جماعتوں کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ میری اپنی قیادت سے بات ہوٸی ہے، یہ سیاسی جماعتوں کامینڈیٹ نہیں کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔ صدر نے الیکشن کی تاریخ وزیراعظم کی ایڈوائس کےبغیردی، اور بغیر ایڈوائس الیکشن کی تاریخ دینا خلاف آئین ہے، صدرنےالیکشن کمیشن سے بھی مشاورت نہیں کی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اسمبلی مدت پوری کرے تو صدر کو ایڈوائس کون کرے گا، اسمبلی مدت پوری کرے تو 2 ماہ میں الیکشن لازمی ہیں، ایڈوائس تو صدر 14 دن بعد واپس بھی بھجوا سکتا ہے، سمری واپس بھجوانے کی صورت میں 25 دن تو ضائع ہوگئے، وزیر اعظم کو اعتماد کے ووٹ کا کہنا صدر کی صوابدید ہے، صدر کو اعتماد کے ووٹ کا کہنے کے لیے سمری کی ضرورت نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ حالات میں 90 روز میں الیکشن ضروری ہیں، پشاور ہائی کورٹ نے 2 ہفتے نوٹس دینے میں لگائے، لاہور ہائی کورٹ میں بھی معاملہ التواء میں ہے، سپریم کورٹ میں آج مسلسل دوسرا دن ہے اورکیس تقریباً مکمل ہوچکا ہے، عدالت کسی فریق کی نہیں بلکہ آئین کی حمایت کررہی ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت ہائی کورٹس کو جلدی فیصلے کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت معاملہ آگے بڑھانے کیلئے محنت کر رہی ہے، ججز کی تعداد کم ہے پھر بھی عدالت نے ایک سال میں 24 بڑے کیسزز نمٹائے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کی تاریخ دینا صدر کی صوابدید ہے، اسمبلی مدت پوری ہو تو صدر کو فوری متحرک ہونا ہوتا ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے مؤقف پیش کیا کہ سپریم کورٹ رولز میں بینچ تشکیل کا طریقہ کار موجود ہے، سپریم کورٹ رولز کے مطابق یہ آگاہ کرنا ضروری ہے کہ معاملہ ہائیکورٹ میں ہے یا نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ درخواست گزار نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہو تو بتانا ضروری ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ میں سینیٹرہوں ابھی سینیٹ اجلاس نہیں ہورہا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 3 ہفتے سے ہائیکورٹ میں صرف نوٹس ہی چل رہے ہیں، اعلی عدلیہ کو سیاسی تنازعے میں نہیں پڑنا چاہیے، صرف مخصوص حالات میں عدالت ازخودنوٹس لیتی ہے، گزشتہ سال 2 اس سال صرف ایک ازخود نوٹس لیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سب متفق ہیں کہ آرٹیکل 224 کے تحت 90 روز میں الیکشن لازم ہیں، عدالت تلاش میں ہے کہ الیکشن کی تاریخ کہاں سے آنی ہے، مستقبل میں الیکشن کی تاریخ کون دے گا اس کا تعین کرنا ہے، صرف قانون کی وضاحت کرناچاہتے ہیں، عدالت کسی سے کچھ لے رہی ہے نا دے رہی ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل ایکٹوازم میں تحمل پر عدالت کا مشکور ہوں۔

ن لیگ کے وکیل مقصود اعوان کے دلائل

فاروق ایچ نائیک کے بعد ن لیگ کے وکیل مقصود اعوان کے دلائل شروع کردیئے۔

ن لیگ کے وکیل منصور اعوان نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ 1975 میں آرٹیکل 184/3 کی پہلی درخواست آئی تھی، عدالت نے تمام اعتراضات مسترد کرتے ہوئے مقدمہ سنا تھا، ہائی کورٹ کا فیصلہ آ چکا جو سپریم کورٹ میں چینلج نہیں ہے، اگر عدالت کہتی ہے کہ گورنر تاریخ دے گا تو کوئی مسئلہ نہیں، عدالت کسی اور نتیجے پر گئی تو ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم ہو جائے گا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ حالات میں مقدمات دو مختلف ہائی کورٹس میں ہیں، ایسا بھی ممکن ہے دونوں عدالتیں متضاد فیصلے دیں، وقت کی کمی کے باعث معاملہ اٹک سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ بھی ممکن ہے ہائی کورٹس کا فیصلہ ایک جیسا ہو اور کوئی چیلنج نہ کرے۔

وکیل ن لیگ نے جواب دیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے دو آئینی اداروں کو مشاورت کا کہا ہے۔ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ اصل معاملہ وقت کا ہے جو کاقی ضائع ہو چکا، 90 دن کا وقت گزر گیا تو ذمہ دار کون ہوگا۔ جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ لاہور ہائی کورٹ میں کیس زیادہ تاخیر کا شکار نہیں ہورہا۔

ن لیگ کے وکیل منصور اعوان نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ امکان ہے ہائی کورٹس کے فیصلے مختلف ہی آئیں گے۔

جے یو آئی ف کے وکیل کامران مرتضی کے دلائل

ن لیگ کے وکیل کے بعد جمیعت علمائے اسلام (ف) کے وکیل کامران مرتضی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینا گورنر کا اختیار ہے، گورنر کے علاوہ کسی کو تاریخ دینے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔ مردم شماری ہو چکی ہے، ایسا ممکن نہیں کہ دو صوبوں میں سابقہ مردم شماری پر الیکشن ہو۔

وکیل کامران مرتضیٰ نے فاروق ایچ نائیک کے مؤقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا ایک صوبے میں گورنر تاریخ دے اور دوسری میں نہ دے، آرٹیکل 105-3 کو غیر موثر نہیں کیا جاسکتا، الیکشن ایکٹ میں صدر کا اختیار آئین کے مطابق نہیں ہے، الیکشن ایکٹ بناتے ہوئے شاید غلطی ہوئی ہو۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل جے یو آئی سے استفسار کیا کہ غلطی کو درست اپ نے کرنا ہے یا عدالت نے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمان نے جو قانون بنایا ہے اسکا کوئی مقصد ہو گا۔

جسٹس جمال خان نے وکیل سے استفسار کیا کہ اسمبلی کو قانون سازی کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا۔ جس پر وکیل کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ وفاق میں تو تیز رفتاری سے قانون سازی ہوتی ہے۔

جسٹس جمال خان نے کامران مرتضی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ گورنر آپ کی پارٹی کے ہیں، انہیں کہیں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیں۔

صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجا کے دلائل

کامران مرتضیٰ کے بعد صدر پاکستان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کیا تو کہا کہ صدر تسلیم کرتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں الیکشن کیلٸے انہیں تاریخ نہیں دینی چاہیے تھی، صدر کو کے پی الیکشن کیلٸے تاریخ دینے کا اختیار نہیں تھا، صدر مملکت اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں گے۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ گورنر کے پی کا موقف معاملے کو پیچیدہ بناتا ہے، پنجاب میں صدر کو اختیار تھا کے پی میں نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ صدر کو رائے آپ نے کس بنیاد پر دی یہ بتاٸیں۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ صدر مملکت نے فیصلہ کیا ہے کہ کے پی میں انتخابات کی تاریخ لینے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیں، صدر مملکت کا کہنا ہے کہ کے پی میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کی، صدر مملکت نے کہا ہے کہ کے پی میں انتخابات کی تاریخ دینا بھی گورنر ہی کا اختیار ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ اب تک صدر مملکت نے کے پی کی حد تک ایڈوائس واپس کیوں نہیں لی۔ جس پر صدر کے وکیل سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ صدر مملکت جلد ایڈوائس واپس لیں گے۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ صدر نے الیکشن کمیشن کو مشاورت کے بلوایا تھا، لیکن الیکشن کمیشن نے مشاورت سے انکار کردیا، صدر مملکت نے آئین و قانون کے مطابق تاریح دی، 90 روز میں ہر صورت انتحاب ہونے چاہیئے۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت از خود نوٹس لینے اور درخواستیں سننے کے لیے با اختیار ہے، صدر کو آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی کی دھمکیاں مل رہی ہیں، کابینہ نے صدر کو کہا ہے، آپ کے خلاف کاروائی ہوسکتی ہے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ جہاں آرٹیکل 6 لگتا ہے وہاں لگاتے نہیں۔

صدر پاکستان کے وکیل کے دلاٸل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ صدر کا حکم کوٸی نہیں مان رہا اس لٸے عدالتی کاروواٸی کی حمایت کر رہے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کا مؤقف

صدر مملکت کے وکیل کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ 2013 اور 2018 میں انتخابات کا اعلان صدر نے وزیراعظم کی ایڈواٸس پر کیا تھا، صدر مملکت لاہور ہاٸی کورٹ کے حکم سے باخبر تھے۔

عدالت نے تمام دلائل سننے کے بعد سماعت پر فیصلہ محفوظ کرلیا، اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ کچھ دیرمیں سنایا جائے گا۔ فیصلہ جلدی سنانے کی کوشیش کریں گے، آج کسی وقت فیصلہ سنایا جائے گا۔

بعد ازاں کہا گیا کہ فیصلہ اب کل 11 بجے سنایا جائے گا۔

اسلام آباد

Supreme Court of Pakistan

Suo Moto

Punjab KP Election Case

Politics 28 Feb 2023