’از خود نوٹس کا کوئی جواز نہیں‘، 3 ججز کے اختلافی نوٹ سامنے آگئے
پنجاب اور خیبرپختون خوا میں انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس پر بننے والے 9 ججز میں سے 3 ججز کے اختلافی نوٹ سامنے آگئے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ اوپن کورٹ میں دیاگیا حکم تحریری حکم نامےسےمطابقت نہیں رکھتا، ہمارےسامنے رکھے گئے سوال کو علیحدہ نہیں دیکھا جاسکتا، اسمبلیاں توڑنے کی آئینی حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیا اسمبلیاں آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟ قانونی حیثیت پرسوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سےمتعلق ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے نوٹ میں لکھا کہ سامنے آنے والا معاملہ صوبائی عدالت کے سامنے موجودہے، اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے، چیف جسٹس نے مجھ سے معاملے پر سوالات مانگے، کیاوزیراعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے؟ کیا کسی بنیاد پر وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس کو مسترد کیا جاسکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ میرے پاس بینچ سے الگ ہونے کا کوئی قانونی جواز نہیں، اپنے خدشات کو منظر عام پر لانا چاہتا ہوں۔ نوٹ میں جسٹس منصورعلی شاہ نے بینچ میں شامل جج کی آڈیو لیکس کا تذکرہ کیا اور لکھا کہ جج سے متعلق الزامات کا کسی فورم پر جواب نہیں دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے بینچ میں شامل جج پر اعتراض کیا، اور دیگر سینئر ججز کی بینچ میں عدم شمولیت پر بھی اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ 2 سینئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کیلئے ضروری ہےکہ شفافیت برقرار رہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ الیکشن کا معاملہ پشاور اور لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، اسی دوران سپریم کورٹ کی جانب سے ریمارکس ہائی کورٹس میں زیر سماعت مقدمات پر اثرانداز ہوں گے۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس کا کوئی جواز نہیں، میری بینچ میں شمولیت سے متعلق فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑتا ہوں۔
Comments are closed on this story.