بلوچستان اسمبلی میں بارکھان واقعہ کی گونج، وزرا کی مذمت
بلوچستان اسمبلی میں بارکھان میں قتل افراد کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی، وزیرتعلیم نصیب اللہ مری نے بارکھان واقعے کی مذمت کرتےہوئے مطالبہ کیا کہ وزیراعلیٰ اس واقعے کی جودیشل انکوائری کرائیں، سپریم کورٹ اوربلوچستان ہائیکورٹ جوڈیشل کمیشن بنائے۔
بلوچستان کےشہر بارکھان کےکنویں سے مردہ حالت میں ملنےوالی خاتون اور اس کے دو بیٹوں کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا ، لاشیں کوہلو کے رہائشی خان محمد کی اہلیہ اور دو بیٹوں کی بتائی جاتی ہیں
بتایا جاتا ہے کہ کنویں سے مردہ حالت سے ملنے والی وہی خاتون ہے جس نے کچھ ہفتے پہلے الزام لگایا تھا کہ وہ صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں قید ہے اور اسکے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، تاہم اب اسی خاتون اور اسکے بیٹوں کی لاشیں ملی ہیں۔
قتل کی لرزہ خیز اور دل دھلا دینےوالی واردات کی مختلف حلقوں کی جانب سے مذمت کی جارہی ہے۔
وزیرتعلیم نصیب اللہ مری نےکہا کہ ہم سب اس واقعہ کے ذمہ دار ہیں،خاتون کے دیگر بچوں کو بھی بازیاب کرایا جائے۔ سینیٹ میں بھی اس معاملے پر بات ہوئی مگر کچھ نہیں ہوا، ایسا واقعہ بلوچستان کی روایات کے خلاف ہے،نصیب اللہ مری نے واقعہ کےخلاف احتجاج کیا اور بلوچستان اسمبلی اجلاس سے واک آوٹ کرگئے۔
بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر نےبھی خاتون اور دو بیٹوں کے قتل کی مذمت کرتےہوئےکہا کہ ایوان صوبے کے لوگوں کی جان ومال کا امین ہے، ملزمان کو سزا ملنی چاہیے، واقعے پر سب کو آواز بلند کرنی چاہیے۔
رکن اسمبلی اسد بلوچ نے بھی واقعہ کی مذمت کرتےہوئے کہا کہ پہلے سردار ایماندار تھے، اب نہیں رہے، صوبے میں ریاست کی رٹ اور قانون کی بالا دستی قائم ہونی چاہیے، بلوچستان حکومت اس واقعے کے ذمہ داران کا تعین کرے، نجی جیلوں میں لوگوں کورکھ کرمارنا کہاں کا قانون ہے
دوسری جانب صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران نے الزامات کی تردید کرتےہوئےکہا ہے کہ اگر ان کی کوئی نجی جیل ہے تو تحقیقات کی جائیں، وہ کیوں مستعفی ہوں، معاملےپر تحقیقاتی کمیٹی بنائی جاتے تو وہ پیش ہو نےکےلئے تیار ہیں۔
Comments are closed on this story.