خواتین کا مطالبہ، ’ردا تبسم ہمارے پیسے واپس کرو‘
منگل 15 فروری کو متعدد خواتین نے کراچی سٹی کورٹ کے باہر ردا تبسم نامی ایک آن لائن سیلر کے خلاف احتجاج کیا، جن پر ملک بھر کی کم از کم 41 خواتین کے ساتھ 10 ملین (ایک کروڑ روپے) سے زائد کے فراڈ کا الزام ہے۔
خواتین نے ”ہماری رقم واپس کرو اور ردا تبسم کو گرفتار کرو“ کے نعرے لگائے۔
ردا تبسم ”ایچ ایم“ کے نام سے ایک آن لائن برانڈڈ ڈریس کا بزنس کرتی ہیں اور 2020 سے سستے کپڑے فروخت کر رہی ہیں۔
انہوں نے اپنے کم از کم 41 کسٹمزر کے خلاف ضلعی عدالت میں ہراساں کرنے کی درخواست دائر کی، اور دعویٰ کیا کہ وہ انہیں ہراساں کر رہے ہیں کہ ان کے ذمہ کسٹمزر کے پیسے واجب الادا ہیں، لیکن ردا کا دعویٰ ہے کہ وہ پیسے دے چکی ہیں۔
خواتین کے وکیل جاوید چٹاری کہتے ہیں کہ واٹس ایپ، یوٹیوب اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم اس بات کے ثبوت سے بھرے ہوئے ہیں کہ اس فراڈ کا اصل شکار کون ہے۔
سیشن کورٹ میں دائر درخواست کے جواب میں خواتین نے مؤقف اختیار کیا کہ ردا تبسم بروقت لباس کا اسٹاک فراہم کرنے اور ادائیگیوں میں ناکام رہی ہیں۔
خواتین نے مزید کہا کہ ردا نے واجبات ادا کرنے کے بجائے ان کے خلاف ہراساں کرنے کا سول مقدمہ دائر کیا ہے۔
مظاہرے میں شامل ایک خاتون نے کہا کہ ”میں نے ردا تبسم کو جنوری 2023 میں آنے والے برانڈڈ ملبوسات کے تازہ اسٹاک کے لیے دسمبر 2022 میں پیشگی ادائیگی کی تھی، لیکن اس نے آرڈر مکمل نہیں کیا۔“
خاتون نے ایک پوسٹر بھہی اٹھا رکھا تھا جس پر “مدد اور سہارے کی ضرورت ہے “درج تھا۔
وکیل چٹاری نے کہا کہ ردا تبسم نے کراچی، اسلام آباد، لاہور، کوئٹہ، ملتان اور حیدرآباد سمیت مختلف شہروں میں متعدد خواتین کو دھوکہ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ردا پر کئی خواتین کی مختلف رقوم واجب الادا ہیں، جن میں 10 لاکھ روپے سے لے کر 5.7 ملین روپے تک شامل تھے اور ان میں 10 لاکھ روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔
چٹاری نے مزید کہا کہ وہ ان شہروں کے کئی تھانوں میں درخواستیں جمع کروا رہے ہیں۔
چٹاری نے میڈیا کو بتایا کہ کچھ پولیس اہلکار ردا اور ان کے ساتھیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے انسپکٹر جنرل سندھ سے رابطہ کیا ہے تاکہ ملوث افسران کے خلاف محکمانہ انکوائری شروع کی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ پولیس اہلکاروں کی ایک فہرست پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو خواتین اور ان کے اہل خانہ کو فون کر رہے ہیں اور انہیں عدالت میں جانے سے باز آنے کا کہہ رہے ہیں اور یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ خواتین کو ان کی رقم مل جائے گی۔
ردا کی کہانی کا پہلو
ردا تبسم کی پٹیشن، جس کی ایک کاپی آج نیوز کے پاس دستیاب ہے، میں دعویٰ کیا گیا کہ جب سے انہوں نے اپنا کاروبار بڑھایا ہے بہت سے لوگ ان سے حسد کرنے لگے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پٹیشن میں درج 41 مدعا علیہان میں سے پہلے دو انہیں ’دھمکیاں‘ دے رہے تھے اور ’پروپیگنڈہ پھیلا رہے ہیں‘۔
درخواست کے مطابق، مدعا علیہ ایک اور دو، جو ماں اور بیٹے کی جوڑی لگتے ہیں، نے 22 جنوری 2023 کو واٹس ایپ پر ردا کے بارے میں ایک ہتک آمیز بیان پوسٹ کیا اور دعویٰ کیا کہ وہ ایک فراڈ ہے، جس کی وجہ سے ان کے باقی صارفین یقین کرنے لگے کہ انہیں بھی دھوکہ دیا گیا تھا۔
ہتک آمیز بیان پوسٹ کرنے کے ایک دن بعد، نو سے دس لوگ ان کے گھر میں گھس آئے اور ہراساں کیا۔
درخواست میں کہا گیا کہ انہوں نے ردا کے بیگ سے ایک فون اور نقدی چرا لی۔
ردا نے دعویٰ کیا کہ حملہ آوروں کو مدعا علیہ ایک اور دو نے بھیجا تھا اور دوسرے مدعا علیہان بھی انہی کی وجہ سے ردا دھمکیاں دے رہے تھے۔
اگلے دن جب وہ اور ان کے انکل تھانے پہنچے تو انہی لوگوں نے ان کے انکل کے ساتھ بدسلوکی کی۔
انہوں نے کہا کہ مدعا علیہان ایک اور دو کے اکسانے پر مدعا علیہان سمیت 150 افراد جمع ہوئے تھے۔
پولیس نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ ردا اڑھائی ماہ میں مدعا علیہان کو پوری رقم واپس کر دیں گی۔
ردا نے کہا کہ انہیں دو دھمکی آمیز فون کالیں موصول ہوئیں، ایک ایسے شخص کی طرف سے جس کا دعویٰ تھا کہ وہ زرداری ہاؤس سے ہے اور دوسری ایف آئی اے انسپکٹر کی طرف سے (جو درخواست میں مدعا علیہ کے طور پر درج ہے)۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ تمام مدعا علیہان، 1 اور 2 کے اکسانے پر مختلف نمبر استعمال کر کے ردا کو ہراساں اور بلیک میل کر رہے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ مدعا علیہان میں سے ایک نے ردا کے ڈیلیوری رائڈر سے دس لاکھ پچاس ہزار روپے مالیت کا کپڑوں کا اسٹاک چھین لیا اور اب بھی اس کے پاس ہے۔
ردا نے کہا کہ دو دیگر مدعا علیہان نے تین لاکھ روپے کا اسٹاک زبردستی لے لیا۔
درخواست میں کہا گیا کہ ردا کو مزید ہراساں کرنے سے بچانے کے لیے مدعا علیہان کو روکا جائے۔
Comments are closed on this story.