Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

کے پی او حملے کے بعد سندھ حکومت کے لیے گئے فیصلوں کی فہرست

وزیراعلیٰ کا کے پی او حملے پر پالیسی بیان جاری
شائع 20 فروری 2023 07:10pm
تصویر بزریعہ اے ایف پی
تصویر بزریعہ اے ایف پی

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے 17 فروری کو کراچی پولیس آفس (کے پی او) پر ہونے والے حملے پر پالیسی بیان جاری کیا ہے۔

انہوں نے سندھ اسمبلی کے فلور پر خطاب کرتے ہوئے اب تک ہونے والی تحقیقات کی کچھ تفصیلات بتائیں اور حملے کے بعد شہر میں نافذ سیکیورٹی پلان کے بارے میں بھی بتایا۔

کے پی او حملے کی سرکاری تفصیلات

  • خودکش جیکٹس پہنے ہوئے تین دہشت گرد 1995 ماڈل کی کار میں پولیس کوارٹرز سے گزرے اور کمپاؤنڈ کی دیوار پھلانگ کر 17 فروری 2023 کی شام 7 بج کر 10 منٹ پر کے پی او کی چار منزلہ میں داخل ہوئے۔
  • دہشت گردوں نے خاردار تاریں کاٹیں تو کانسٹیبل عباس لغاری نے انہیں روکا جس پر وہ شہید کردئے گئے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ سوال یہ ہے جب وہ (خاردار) تاریں کاٹ رہے تھے تو دوسرے پولیس والے اس وقت کہاں تھے۔
  • دہشت گردوں نے اندھا دھند فائرنگ کی جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ پولیس عملے کو یرغمال بنانا تھا۔
  • رینجرز کے ایک بریگیڈیئر جو چھ سے سات رینجرز کے جوانوں کے ساتھ کہیں سے آرہے تھے، کے پی او پہنچے اور آپریشن میں حصہ لیا۔
  • ڈی آئی جی ساؤتھ ، سی ٹی ڈی اور اسپیشل برانچ کے دیگر پولیس افسران (حالانکہ وہ علاقے میں تعینات نہیں تھے) موقع پر پہنچ گئے اور آپریشن کی مناسب قیادت کی۔
  • ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو اسلام آباد میں تھے لیکن وہ اپنے ڈی آئی جیز اور آئی جی پولیس سے رابطے میں تھے۔
  • پاک فوج کے اسنائپرز کو قریبی عمارتوں کی چھتوں پر تعینات کیا گیا اور نیوی کے رات میں دیکھنے والے ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کا منصوبہ زیر بحث لایا گیا، تاہم اتنے میں پولیس اور رینجرز نے دو دہشت گردوں کو مار گرایا اور تیسرے نے تیسری منزل پر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
  • حملے میں ملتان کے شجاع آباد سے تعلق رکھنے والے رینجرز کے ایس آئی تیمور شہزاد، شکارپور کے پولیس کانسٹیبل لطیف، لاڑکانہ کے ہیڈ کانسٹیبل غلام عباس، اورنگی ٹاؤن کے کانسٹیبل سعید اور فیصل آباد کے سینٹری ورکر اجمل مسیح جاں بحق ہوئے۔ کُل اٹھارہ پولیس ، ایک رینجرز اہلکار اور ایک شہری حملے میں زخمی ہوا۔
  • دہشت گردوں کا تعلق شمالی وزیرستان اور لکی مروت سے تھا اور وہ خودکش جیکٹس اور اسلحہ لے کر کراچی پہنچے تھے۔
  • انہوں نے جو 1995 ماڈل کی کار استعمال کی، جو ایک ٹرانسفر لیٹر پر چل رہی تھی۔ حالانکہ اسے چوتھے مالک کو فروخت کر دیا گیا تھا، کسی نے اسے اس کے نام پر منتقل کرنے کی زحمت نہیں کی۔
  • ٹی ٹی پی نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ ایف آئی آر نمبر 20/2023 درج کی گئی ہے۔

حکومتی فیصلے

سندھ حکومت کچھ تبدیلیاں کرنے جا رہی ہے۔

  • ”اوپن لیٹر“ پر چلنے والی گاڑیوں کو ضبط کیا جائے گا۔ محکمہ ایکسائز قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے روڈ چیکنگ شروع کرے گا۔
  • اگر یا جب کوئی حملہ یا واقعہ کسی سڑک یا اس کے قریب ہو رہا ہو تو گاڑی چلانے والوں کو رکنے کی ہدایت کی جائے گی۔ (جب کے پی او پر حملہ ہوا تو شاہراہ فیصل بند تھا لیکن اس وقت بھی گاڑی والے اسے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے تھے)
  • جب کے پی او پر حملہ ہوا تو فلاحی تنظیمیں بالخصوص ایمبولینسز حملے کی نوعیت پر غور کیے بغیر موقع پر پہنچ گئیں۔ نتیجتاً پہلے زخمی ہونے والوں میں ایمبولینس کا عملہ شامل تھا۔
  • میڈیا کے ساتھ بھی یہی ہوا، جس نے جائے وقوعہ سے رپورٹنگ شروع کر دی، جہاں سٹریٹ لائٹس سمیت تمام لائٹیں بند کر دی گئی تھیں اور براہ راست فائرنگ کی گئی۔ میڈیا نے قیاس آرائیاں شروع کر دیں۔
  • فلاحی تنظیموں اور میڈیا کو ایسے واقعات کی کوریج کے لیے ایس او پیز دیے جائیں گے۔
  • سادہ کپڑوں میں سیکیورٹی گارڈز کو گاڑیوں میں اسلحہ لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ نہ صرف گاڑیاں ضبط کی جائیں گی بلکہ گارڈز کو بھی گرفتار کیا جائے گا۔
  • اسٹریٹجک اداروں کا سکیورٹی آڈٹ کرایا جائے گا۔

Karachi Police Office Attack

KPO Attack