کراچی لٹریچر فیسٹیول: ’تعلیم اور شعور کے دروازے بند کرنے سے دہشت گردی پروان چڑھی‘
کراچی میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیراہتمام منعقدہ تین روزہ لٹریچر فیسٹیول کا آج دوسرا روز ہے، ادبی میلہ علم کے خزانے سموئے ہوئے ہے، فیسٹویل میں مختلف بک پبلیشرز اور ادیب بھی شریک ہیں۔
اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ جاری ادبی میلے میں غیرملکیوں کی بھی بڑی تعداد دلچسپی لے رہی ہے۔
فیسٹیول میں بیرون ممالک سے آئے افراد نے بھی ناصرف انجوائے کیا بلکہ ادب اور لٹریچر کے پھیلاؤ کی اس کوشش کو سراہا۔
کراچی لٹریچر فیسٹیول کے دوسرے روز ممتاز ادیب نورالہدیٰ شاہ کا کہنا تھا کہ تعلیم اور شعور کے دروازے بند کرنے سے دہشت گردی پروان چڑھی ہے۔
ادبی میلے پر میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کند اورمفلوج ذہنوں کو ہوا دی گئی، ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے سیکیورٹی سمیت شعور کو آگے لے کر چلنا پڑے گا۔
فیسٹیول میں 60 سے زائد ایونٹس پیش کئے گئے ہیں، جن میں جغرافیائی، سیاسی چیلنجز اور موسمیاتی تبدیلیوں سےمتعلق سیشنز شامل ہیں۔
نجی ہوٹل میں منعقدہ لٹریچر فیسٹیول میں پینل ڈسکشن، کتابوں کی رونمائی اور تصویری نمائش سمیت دیگر ادبی سرگرمیاں رکھی گئی ہیں۔
فیسٹیول کا موضوع ”عوام، کرہ ارض اور امکانات“ ہے جس کے تحت پاکستان کو درپیش اقتصادی و جغرافیائی اور سیاسی چیلنجز کو موضوع بحث بنایا جائے گا۔
کے ایل ایف میں پاکستان میں آنے والے حالیہ تباہ کن سیلاب اور ترکیہ و شام میں زلزلہ سمیت موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پرتوجہ مرکوزکی جائے گی۔
14ویں کراچی لٹریچر فیسٹیول میں 200 سے زائد مقررین شرکت کر رہے ہیں۔ پاکستان، برطانیہ، امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، جنوبی افریقا، جرمنی اورفرانس سے تعلق رکھنے والے ماہرین اپنا علم اور زندگی کے تجربات شرکاء سے شیئر کریں گے۔
انعام یافتہ مصنفین ڈیمن گالگٹ اور شیہان کروناتیلاکا بھی پہلی بار کراچی لٹریچر فیسٹیول کا حصہ ہوں گے۔
کراچی لٹریچر فیسٹیول 19 فروری تک جاری رہے گا۔
Comments are closed on this story.