پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے، کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
اردو زبان کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی آج 154ویں برسی منائی جارہی ہے۔
مرزا غالب کا اصل نام اسد اللہ خان بیگ تھا۔ وہ دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے، بچپن میں ہی والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا جس کے بعد ان کی پرورش ان کے چچا نصر اللہ بیگ نے کی۔
ہندوستان کے سیاسی حالات اور مغل دور حکومت کے انحطاط و زوال کے ادوار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
شاعری میں اساتذہ کی فہرست میں گنے جانے والے مرزا اسد اللہ خان غالب اردو کے رخشندہ ترین ستارے تصور کیے جاتے ہیں۔
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
گیارہ سال کی عمر میں پہلا شعر کہنے والے اسد اللہ کو شاید خود بھی معلوم نہ تھا کہ جو دیا انہوں نے جلایا ہے وہ اردو زبان کو رہتی دنیا تک روشن کرتا رہے گا۔
آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہوتے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک
لفظوں سے کھیلنا غالب کا کمال تھا،انہوں نے غزل کو نئے جہانوں سے روشناس کرایا،ابتدائی دور میں اساتذہ اور شعراء نے غالب پرتنقید کی کہ ان کی شاعری رنگوں سے عاری اور مشکل ہے،اس کے علاوہ ان کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ مرزا صرف اپنے لیے لکھتے ہیں۔
کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
بالآخر دنیا نے تسلیم کیا کہ غالب آفاقی شاعر ہیں اور ان کی شاعری کائنات کی شاعری ہے،مرزا نے شعر کو انسانی نفسیات اور کائنات کے اسرار و رموز بیان کرنے کا بھی ذریعہ بنایا۔
بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
ان کے اشعار نہ صرف فلسفہ کائنات و زندگی کا احاطہ کرتے ہیں، بلکہ ان کے ہاں غم اور دکھ بھی نمایاں ہیں۔
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
صدیاں گذر گئیں لیکن غالب کی شاعری پہلے کی طرح ترہ تازہ ہے،کسی نے صحیح کہاہے غالب کی شاعری آج کی شاعری ہے،’یعنی غالب ہر دور کا شاعر ہے‘۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک
Comments are closed on this story.