Aaj News

اتوار, نومبر 17, 2024  
14 Jumada Al-Awwal 1446  

آئی ایم ایف غریبوں کے تحفظ کیلئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرے، ہیومن رائٹس واچ

آئی ایم ایف اور حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بحران حل کرنے کیلئے وہ طریقہ اپنائیں جس میں کم آمدنی والے افراد کو ترجیح دی جائے.
شائع 07 فروری 2023 03:36pm

امریکہ میں واقع ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ”ہیومن رائٹس واچ“ (HRW) کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو معاشی طور پر غیر مستحکم افراد کے تحفظ کے لیے پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔

ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے پیر کو جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے، جس سے لاکھوں لوگوں کے صحت، خوراک اور مناسب معیار زندگی کے حقوق خطرے میں پڑ رہے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پیٹریشیا گوسمین کا کہنا تھا کہ، ”لاکھوں پاکستانیوں کو غربت میں دھکیل دیا گیا ہے اور وہ اپنے بنیادی سماجی اور معاشی حقوق سے محروم ہیں۔“

انہوں نے مزید کہا کہ ”آئی ایم ایف اور حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بحران کو حل کرنے کیلئے وہ طریقہ اپنائیں جس میں کم آمدنی والے افراد کو ترجیح دی جائے اور ان کی حفاظت کی جائے۔“ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے۔

ملک کے مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 3 بلین ڈالر رہ گئے ہیں، جو کہ تین ہفتوں کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے بمشکل کافی ہیں، ملک کو 1975 کے بعد مہنگائی کی بلند ترین سطح کا سامنا ہے۔

دریں اثنا، حکومت نے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کی اپنی کوشش میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے اور زرمبادلہ کی شرح پر سے کیپ ہٹا دی ہے، جس کے نتیجے میں امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔

رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان سے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح کو 17 فیصد سے بڑھا کر کم از کم 18 فیصد کرنے کو کہا ہے۔

ملک کو آئی ایم ایف سے 1.1 بلین ڈالر کی واجب الادا قسط حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے، جس کے تحت جون میں ختم ہونے والے بیل آؤٹ پروگرام میں 1.4 بلین ڈالر باقی رہ گئے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی بیل آؤٹ قسط غیر ملکی زرمبادلہ کی شدید کمی کو کم کرے گی اور کثیر جہتی اور دو طرفہ عطیہ دہندگان سمیت دیگر فنڈز تک رسائی کو غیر مقفل کرے گی۔

تاہم، ادارے نے اس بات پر روشنی بھی ڈالی کہ آئی ایم ایف نے اس قرض پر جو شرائط رکھی ہیں وہ ”یا تو سماجی اور معاشی مشکلات کو بڑھا سکتی ہیں یا بحران کی بنیادی وجوہات کو حل کرتے ہوئے پاکستانیوں کو اشد ضروری ریلیف فراہم کر سکتی ہیں“۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ”ایک گرتی ہوئی مقامی کرنسی، آسمان چھوتی مہنگائی اور بجلی اور ایندھن پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے نے پہلے ہی بہت سے لوگوں کے لیے اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ پروگریسو ٹیکس لگانے کے بجائے ویلیو ایڈڈ ٹیکس میں اضافہ ان لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کرے گا جو پہلے ہی سب سے زیادہ متاثر ہوچکے ہیں۔“

بیان میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کو ”متوقع بچتوں کا کچھ حصہ سماجی تحفظ کے جال کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے تاکہ کوریج کو نمایاں طور پر وسیع کرنے اور سماجی اخراجات میں اضافہ کرنے کے لیے ایک ساختی معیار کو شامل کیا جائے۔“

ادارے کا یہ بھی ماننا ہے کہ آئی ایم ایف کو پاکستان کی حکومت پر زور دینا چاہیے کہ وہ رکاوٹوں کو کم کر کے ملازمت تک خواتین کی رسائی بڑھانے کے لیے پالیسیاں بنائے، جس میں ریاستی مالی اعانت سے چلنے والی زچگی کی چھٹی (میٹرنٹی لیو) اور ماہواری کی حفظان صحت تک سستی رسائی شامل ہو۔

مزید برآں، کہا گیا کہ نئے ٹیکس اقدامات فطرت کے لحاظ سے ترقی پسند ہونے چاہئیں اور ان سے عدم مساوات بڑھنی نہیں چاہیے، اقدامات سے سے زندگی گزارنے کی لاگت میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے، جس سے حقوق کو نقصان پہنچے۔

”بجلی، ایندھن اور قدرتی گیس کے لیے سبسڈی میں کسی بھی قسم کی کٹوتیوں سے پہلے ایک جامع اصلاحاتی منصوبہ ہونا چاہیے، جو اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر شخص بنیادی حقوق کے لیے ضروری توانائی کی فراہمی تک رسائی حاصل کر سکے۔“

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی سفارشات کو سماجی خدمات، جیسے تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، اور غربت میں کمی کے پروگراموں پر حکومتی اخراجات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، جبکہ ٹیکس وصولی کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنا کر اور سخت اور شفاف احتسابی اقدامات کو اپنا کر حکومتی محصولات کو کم کرنا چاہیے۔

ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ، ”آئی ایم ایف کو اپنے طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے ضروری فنڈز جلد از جلد دستیاب کرانا چاہیے، اور لوگوں کے معاشی اور سماجی حقوق کے تحفظ کے لیے حفاظتی اقدامات کرنا چاہیے۔“

گوسمین نے نتیجہ اخذ کیا کہ، ”آئی ایم ایف کو پاکستان کو ایک پائیدار، جامع اور حقوق پر مبنی بحالی کے حصول کے لیے وقت اور لچک فراہم کرنی چاہیے۔“

پاکستان

IMF

Human Rights Watch (HRW)