ٹی ٹی پی حکومتِ پاکستان سے لڑ کیوں رہی ہے؟
گزشتہ کئی مہینوں سے پاکستان دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے، اور پشاور کی پولیس لائن مسجد میں ہونے والے حالیہ خود کش حملے نے قوم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔
یہ خود کش حملہ گزشتہ دس سالوں میں کئے جانے والے مہلک ترین حملوں میں سے ایک تھا، جس میں کم از کم 100 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربکف محمد نامی کمانڈر نے پیر کو ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی، لیکن اس کے فوراً بعد ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے دھماکے سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مساجد یا دیگر مذہبی مقامات کو نشانہ بنانا اس کی پالیسی نہیں ہے۔
گزشتہ نومبر میں حکومتِ پاکستان کے ساتھ جنگ بندی سے دستبردار ہونے کے بعد سے پاکستانی طالبان کو 100 سے زائد حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
تو آئیے ملک میں 15 سال سے مسلح بغاوت کرنے والے پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) اور حکومت کے ساتھ اس کے رشتے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
پاکستانی طالبان لڑ کیوں رہے ہیں؟
”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ میں امریکہ کے ساتھ تعاون سے ناراض ٹی ٹی پی باضابطہ طور پر پاکستان میں 2007 میں اس وقت قائم ہوئی، جب مختلف کالعدم گروہوں نے حکومتِ پاکستان کے خلاف مل کر کام کرنے اور پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کی حمایت کرنے پر اتفاق کیا، جو امریکی اور نیٹو افواج سے لڑ رہے تھے۔
سویڈن میں مقیم پاکستان، افغانستان میں مسلح گروہوں کے محقق عبدالسید کہتے ہیں کہ ”دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ شروع ہوئی تو اس کے نتیجے میں قبائلی پٹی میں مقیم ہزاروں افراد ریاستی کارروائی کے ساتھ ساتھ امریکی ڈرون حملوں میں مارے گئے۔ اس سے بہت زیادہ ناراضگی پیدا ہوئی، اور نتیجے میں بہت سے لوگوں نے ہتھیار اٹھانے کا فیصلہ کیا۔“
11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کیا۔
امریکی افواج نے کئی دہائیوں تک پاک افغان سرحد پر ٹی ٹی پی سمیت مسلح گروپس کو نشانہ بنایا۔
واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات مئی 2011 پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں امریکی فورسز کے ہاتھوں القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد سے سرد ہیں۔
امریکہ نے پاکستان پر طالبان اور القاعدہ کے رہنماؤں کو پناہ دینے کا الزام لگایا۔
2021 پاکستان اور امریکہ کے تعلقات افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد مزید خراب ہوگئے۔
لیکن بظاہر لگ رہا ہے کہ گزشتہ اپریل میں عمران خان کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد یہ سرد تعلقات دوبارہ گرمی پکڑ رہے ہیں۔
عمران خان پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کی مخالفت کرتے رہے ہیں، اور امریکہ کو اپنی حکومت کا تختہ پلٹے جانے کا ذمہ دار بھی ٹھہراتے ہیں۔
ٹی ٹی پی کے مطالبات
اپنے کئی مطالبات میں، تحریک طالبان پاکستان اسلامی قوانین کے سخت نفاذ، حکومتی حراست میں اپنے ارکان کی رہائی اور افغانستان کی سرحد سے متصل صوبہ خیبر پختونخواہ کے کچھ حصوں میں پاکستانی فوج کی موجودگی میں کمی کی خواہاں ہے، جسے وہ طویل عرصے سے اپنے بیس کے طور پر استعمال کرتی آرہی تھی۔
ان کے اہم مطالبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ 2018 میں پاکستان کے قبائلی اضلاع کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کو واپس لیا جائے۔
پچھلے دو سالوں میں ٹی ٹی پی اس بات پر مصر رہی ہے کہ اس کے اقدامات اور کارروائیاں ”دفاعی“ ہیں۔
لیکن اس کالعدم دہشتگرد تنظیم نے نومبر سے پاکستانی افواج اور پولیس پر حملوں میں اضافہ کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کردی۔ کئی مہینوں پر مشتمل یہ جنگ بندی افغان طالبان کی ثالثی میں ہوئی تھی۔
پاکستانی طالبان نے بارہا پولیس کو خبردار کیا ہے کہ وہ خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقوں میں اس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائیوں میں حصہ نہ لیں۔
صحافیوں کے ایک غیر متعصب پلیٹ فارم ”خراسان ڈائری“ کے وینس میں مقیم ایک محقق ریکارڈو ویلے کا کہنا ہے کہ مسلح تنظیمیں سماجی و اقتصادی مواقع کی کمی کی وجہ سے پروان چڑھتی ہیں اور ان کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔
الجزیرہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ “ مرکزی حکومت کی جانب سے خیبرپختونخوا بشمول قبائلی اضلاع کو برسوں سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں کے عوام کو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان میں شورش کے ردعمل کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔“
ویلے کا کہنا ہے کہ اپنے نئے سربراہ نور ولی محسود کے قیادت سنبھالنے کے بعد سے ٹی ٹی پی نے اپنے پروپیگنڈے کے لہجے اور انداز کو تبدیل کر دیا ہے، اور لوگوں کی بنیادی ضروریات جیسے پانی، گیس اور بجلی کو اجاگر کرنا شروع کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئے سربراہ نے خطے میں لوگوں کے لیے خدمات اور مواقع کی کمی پر زور دیا ہے۔
عوامی شکایات کا فائدہ
ملک میں بگڑتی ہوئی معاشی صورتِ حال کے ساتھ ٹی ٹی پی کا ان عوامی شکایات سے فائدہ اٹھانے کے مواقع بڑھا رہی ہے۔
سات قبائلی اضلاع میں سے ایک شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پاکستانی قانون ساز محسن داوڑ کا کہنا ہے کہ مسلح گروہوں کی جانب سے لوگوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا گیا۔
عرب خبر رساں ادارے سے گفتگو میں محسن داوڑ نے کہا کہ ”مسلح گروپ سہولیات اور بنیادی ڈھانچے کی کمی کی وجہ سے لوگوں کی تکالیف کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور انہیں صفوں میں شامل ہونے پر راضی کرتے ہیں۔“
افغان اور پاکستانی طالبان کے درمیان تعلق
پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) افغان طالبان سے الگ ضرور ہیں، لیکن ان کے قریبی اتحادی ہے اور تقریباً ایک ہی نظریے کے حامل ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی نے ٹی ٹی پی کو نیا حوصلہ فراہم کیا ہے۔
پاکستانی طالبان کے جنگجو (دہشتگرد) ملک کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں چھپے رہتے تھے اور افغانستان میں بھی ان کی پناہ گاہیں تھیں، لیکن وہ زیادہ تر خانہ بدوشی زندگی گزارتے تھے۔
تاہم، پاکستانی حکام نے طالبان پر ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو پناہ دینے اور کابل میں پچھلی انتظامیہ کے ہاتھوں گرفتار کیے گئے اس کے رہنماؤں کو رہا کرنے کا الزام لگایا ہے۔
افغان طالبان کی عبوری حکومت نے بارہا کہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی سمیت کسی کو بھی پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
لیکن پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کے قول و فعل کے درمیان تضاد ہے، جو ٹی ٹی پی کو پاکستان میں حملے کرنے سے روک تو سکتے ہیں، لیکن ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
پاکستانی طالبان کی کارروائیوں کا بڑی حد تک مقصد افغان طالبان کے امریکی افواج پر حملوں کی طرح پاکستانی افواج کو نشانہ بنانا اور انہیں علاقوں سے باہر دھکیلنا ہے۔
حالیہ تشدد میں اضافہ کیوں؟
ملک سیاسی عدم استحکام کے درمیان غیر معمولی اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ پاکستان میں آئندہ مہینوں میں مزید پرتشدد کارروائیاں دیکھنے کو ملیں گی۔
پاکستان گزشتہ دو دہائیوں میں لاتعداد مسلح اور دہشتگرد حملوں سے گزرا ہے، لیکن نومبر میں ٹی ٹی پی سے جنگ بندی کے خاتمے کے بعد ان حملوں میں تیزی آئی ہے۔
پاکستانی طالبان باقاعدگی سے فائرنگ یا بم دھماکے کر رہے ہیں، خاص طور پر ناہموار اور دور دراز شمال مغربی پاکستان میں، جو ٹی ٹی پی کا سابق گڑھ ہے۔
اس دہشتگردی نے شمالی اور جنوبی وزیرستان کے سابقہ قبائلی علاقے جو اب صوبہ خیبر پختونخوا کے دو اضلاع ہیں، کے رہائشیوں میں ممکنہ فوجی آپریشن کا خوف پیدا کر دیا ہے۔
پیر کو مسجد میں ہونے والے بم دھماکے کے چند گھنٹے بعد وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں کہا تھا کہ افغانستان کے طالبان حکمرانوں کو بین الاقوامی برادری کے ساتھ اپنے وعدے پر قائم رہنا چاہیے، کہ وہ کسی کو بھی اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف حملوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔
لیکن افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بدھ کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ پاکستانی حکام کو دونوں ممالک کے درمیان ”دشمنی کے بیج بونے“ سے گریز کرنا چاہیے۔
افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم انہیں پشاور بم دھماکے کی مکمل تحقیقات کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
Comments are closed on this story.