Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

خیبرپختونخوا پولیس دہشتگردوں کا ہدف کیوں بنی ہوئی ہے؟

خیبرپختونخوا پولیس کو ٹارگٹ کیا جانا بڑے ڈیزائن کا حصہ ہے، آئی جی کی پروگرام "فیصلہ آپ کا" میں گفتگو
شائع 02 فروری 2023 08:54pm
Asif Zardari par Imran Khan kay qatal ki sazish ka ilzaam kyun?| Faisla Aap Ka with Asma Shirazi

انسپکٹر جنرل (آئی جی) معظم جاہ انصاری کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا پولیس کی اپنی ایک شناخت ہے، اس کا ایک ماضی، ایک تاریخ ہے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اس کی قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے۔

آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں مزیبان عاصمہ شیرازی کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں آئی جی معظم جاہ نے کہا کہ گزشتہ سال دہشتگردی کے واقعات دوبارہ شروع ہونے کے بعد خیبرپختونخوا پولیس کو ٹارگٹ کیا جانا ایک بڑے ڈیزائن کا حصہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا پولیس کی فورس ایک لاکھ 30 ہزار ہے، ان میں سے اگر ایک اہلکار 12 گھنٹے ڈیوٹی دے تو 65 ہزار باوردی اہلکار آپ کو شہر میں نظر آئیں گے، ہر ایک جوان کا نام نظر آتا ہے، رینک لکھا ہوتا ہے، اس لئے اس کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے کہ وہ آسان ہدف ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس اہلکار کو نہیں پتا کہ اس کے گرد جو ہزار پانچ سو لوگ پھر رہے ہیں ان میں کون دہشتگرد ہے۔

آئی جی معظم جاہ نے کہا کہ دور سے فائر کرنا، انفرادی حملے کرنا، پولیس کی گاڑیوں کو نشانہ بنانا بھی عام بات ہے، کیونکہ ان کی بھی اپنی شناخت ہے۔

آئی جی خیبر پختونخوا نے کہا کہ پچھلے ایک گھنٹے کے اندر پولیس پر حملے کے مزید دو واقعات ہوچکے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا پولیس کو نشانہ بنانے کی وجہ یہ ہے کہ مقامی بطور پر پولیس کو لوگ فخریہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں، انہیں یہاں اپنایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کا پہلا قدم ہے پولیس پر حملے کرنا، ان کا حوصلہ توڑنا تاکہ یہ اپنے گھروں میں محصور ہوجائیں، احتجاج کریں، تھانے خالی ہوجائیں اور جب عوام کی حفاظت کیلئے کوئی نہ ہو تو دہشتگرد اپنی رٹ قائم کریں۔ آئی جی کے پی نے کہا کہ پولیس کو ایک منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے، لیکن ہم نے ان میں سے کئی حملوں کا جواب دیا ہے یا انہیں ٹریس اور ٹریک کیا ہے۔

معظم جاہ انصاری کا کہنا تھا کہ ہم ایک جنگ کی حالت میں ہیں، جنگ میں ہمارا بھی نقصان ہوتا ہے اور ان کا بھی، ہم نے یہ جنگ نقصان سے بالکل قطع تعلق ہوکر لڑنی ہے اور اس جذبے سے آگے نہیں بڑھے تو اس جنگ کو جیتنا مشکل ہوجائے گا۔

سیکورٹی لیپس کے سوال پر آئی جی خیبرپختونخوا نے کہا کہ میں نے تسلیم کیا سیکیورٹی لیپس تھا، حملہ آور کیونکہ پولیس کی وردی میں تھا، جس طرح اس نے خود کو جس طرح پیش کیا ہمارے لوگوں کو لگا کہ وہ اپنا پیٹی بند بھائی ہے، وہ موٹر سائیکل کو کھینچتا ہوا پولیس لائن میں لایا اور بڑے آرام سے چلتا ہوا اندر داخل ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم سیکیورٹی پر نظر ثانی کر رہے ہیں، آج میں پولیس لائن میں داخل ہوا تو میری گاڑیوں کی بھی تلاشی لی گئی، میں نے تمام کو ہدایات دی ہیں کہ چیکنگ پر اب کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئیے، سینئیر افسر ہو یا کوئی بھی سب کی گاڑی کی جامع تلاشی لینی ہے۔

پولیس میں موجود کالی بھیڑوں اور دہشتگردوں کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اندرونی مدد کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا، ہم پورے نیٹ ورک تک پہنچیں گے تو آگے مزید لیڈ پر کام کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب برطانیہ میں پلے بڑھے اور تعلیم یافتہ لوگ داعش اور القاعدہ میں شامل ہوسکتے ہیں تو یہ کہیں بھی ہوسکتا ہے، جب لبرل معاشرے میں ایسے لوگ ہوسکتے ہیں پاکستان میں تو ویسے ہی قدامت پسند معاشرہ ہے۔

سیاسی جماعتوں پر دہشتگردی کا باعث بننے کے الزامات پر آئی جی کے پی نے کہا کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ہم ریاست، حکومت پاکستان اور عوام کے ملازم ہیں، ہم ہر ایک کیلئے وہ خدمات کریں گے جو قانون ہمیں کہتا ہے۔ میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتا۔

دہشتگردوں کی دوبارہ گروہ بندی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 15 اگست 2021 میں افغانستان حکومت کی تبدیلی کے بعد وہاں جو لوگ تھے ان میں سے بہت سے یہاں آئے ہیں۔ ان دہشتگردوں کے ساتھ مجرموں کا ساتھ بھی ہے جو اپنے علاقوں میں کچھ نہیں تھے لیکن اب یہ عوام کو ڈراتے دھمکاتے اور بھتے لیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پچھلے ڈیڑھ دو سال سے ہمارے پاس بھتے کی کالز آرہی تھیں اور تمام نمبرز افغانستان سے تھے، ہمارے پاس حکومتی سطح پر کوئی قانونی مدد نہیں تھے۔ ہم افغان نمبرز کو بلاک بھی کردیں تو واٹس ایپ بلاک نہیں کرسکتے۔

معظم جاہ انصاری نے آخر میں بتایا کہ ہم نے سیف سٹی پروجیکٹ کو دوبارہ سے لانچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، 2023 میں اس کا فیز 1 مکمل کر لیں گے۔

KPK Police

ig kpk

Terrorism in KPK

Peshawar police lines blast Jan 2023

moazzam jah ansari