چین کے ایک صوبے میں زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اجازت
تیزی سے کم ہوتی آبادی کو سنبھالا دینے کے لیے چین صوبہ سیچوان میں جوڑوں کو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اجازت دے رہا ہے،گزشتہ سال چین کی آبادی میں گزرے 60 سال میں سال میں پہلی بار کمی واقع ہوئی تھی۔
چین میں کئی دہائیوں سے یک بچے(ون چائلڈ) کی پالیسی تھی جس میں 2021 میں شادی شدہ جوڑوں کے لیے قومی سطح پر اضافہ کرکے3 کر دیا گیا تھا۔
تاہم سیچوان میں اس پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے اب غیر شادی شدہ افراد کو بھی بچوں کی پرورش کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
اس سے قبل اکیلی خواتین کے بچے کی پیدائش کے اندراج پر پابندی تھی۔
سال 2016 میں چین نے اپنی ایک بچے کی متنازع پالیسی ختم کر دی تھی، جسے 1979 میں متعارف کرایا گیا تھا۔ قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے خاندانوں پرجرمانہ عائد کیا گیا تھا اور کئی کیسز میں تو متعلقہ افراد کو ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے تھے۔
چین کی ثقافت رہی ہے کہ وہ عموماً لڑکوں کو لڑکیوں پرترجیح دیتے ہیں، اس پالیسی کی وجہ سے بہت سوں نے جبری اسقاط حمل بھی کروایا کیونکہ وہ صرف ایک بچے کی اجازت کی صورت میں بیٹی کے بجائے بیٹے کی خواہش رکھتے تھے۔
لیکن 2016 میں کی جانے والی یہ تبدیلیاں بھی بھی ملک میں شرح پیدائش میں کمی روکنے میں ناکام رہیں۔ چین میں گزشتہ سال پہلی بار اموات کی تعداد پیدائش سے زیادہ تھی۔
اب ملک کے جنوب مغرب میں 80 ملین کی آبادی والے صوبے سیچوان میں بچوں کی تعداد کی کوئی حد نہیں رکھی گئی۔
چین کے صدرشی جن پنگ نے شرح پیدائش میں اضافے کو اپنی ترجیح بنایا ہے۔ حکومت نے گرتی ہوئی شرح پیدائش میں بہتری کے لیے ٹیکس چھوٹ اور بہترزچگی کی سہولت کی پیش کش کی ہے۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چین اب بھی کووڈ سے ہونے والی اموات سے نبرد آزما ہے۔ دسمبر میں زیرو کووڈ پابندیوں کے خاتمے کے بعد یہ وائرس قصبوں اور شہروں میں پھیل گیا تھا۔
چین کے علاوہ جاپان سمیت ہمسایہ ممالک کو بھی شرح پیدائش میں کمی کا سامنا ہے۔ جاپان کے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ نتیجے میں بطور ایک معاشرہ کام کرنے کے قابل نہ ہونے کے دہانے پرہے۔
Comments are closed on this story.