Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

90 دن میں انتخابات آئینی تقاضا ہے، گورنر اپنی پوزیشن واضع کریں، لاہور ہائیکورٹ

عدالت کو آدھا گھنٹہ لگے گا کیوں نہ عدالت فیصلہ سنادے، جسٹس جواد حسن
اپ ڈیٹ 30 جنوری 2023 05:30pm
لاہور ہائیکورٹ فوٹو۔۔۔۔۔ فائل
لاہور ہائیکورٹ فوٹو۔۔۔۔۔ فائل

لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب میں انتخابی شیڈول جاری نہ کرنے کے خلاف درخواست کا عبوری تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔

جسٹس جواد حسن نے 5 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول کے لئے گورنر کو خط لکھا لیکن گورنر نے ابھی تک انتخابی شیڈول جاری نہیں کیا۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ 90 دن میں انتخابات آئینی تقاضا اور بنیادی حق اور سیاسی انصاف آئین کی اساس ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کا فیصلے میں کہا کہ وفاق اور حکومت پنجاب کے وکلاء نے جواب کے لئے مہلت مانگی، البتہ اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل 3 فروری کو عدالتی معاونت کے لئے پیش ہوں۔

اس سے قبل لاہورہائیکورٹ نے ریماکس دیے ہیں کہ گورنر پہلے بھی خاموش تھےاب اپنی پوزیشن واضع کریں،گورنر کا رویہ سنجیدہ نہیں ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے پنجاب میں انتخابات کاشیڈول جاری نہ کرنے اور گورنر کو عہدےسے ہٹانے کی درخواست پر سماعت کی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ آئین کےتحت گورنر آئین پر عمل درآمد کا پابند ہے، آئین کےتحت کوئی بھی آئین سے انحراف نہیں کرسکتا،شہریوں کو جمہوری حقوق کی فراہمی بنیادی حقوق دینے کےمتراف ہیں۔

عدالتی حکم پر تحریک انصاف کے رہنماء اسدعمر نے آئین کادیباچہ پڑھتے ہوئے کہا کہ آئین کےتحت شہریوں کوسیاسی انصاف کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔

عدالت نے درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن فریق ہوگا تو عدالت اسے ڈائریکشن جاری کرے گی،پہلے آپ الیکشن کمیشن کو فریق بنائیں ،الیکشن 90 روز میں ہی ہونے چاہیئں ، آپ کی خواست ہے کہ گورنر کو الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کی ہدایت کی جائے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں ابھی الیکشن کمیشن کو فریق بنا لیتا ہوں ،جمہوری نظام کے تسلسل کے لئے گورنر الیکشن کی تاریخ دینے کے پابند ہیں۔

عدالت نے کہا کہ آگاہ کیا جائے کہ گورنر انتخابی شیڈول کی فراہمی کاآئینی حق رکھتے ہیں، جس پر وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ اسمبلیوں کی تحلیل کےبعد 90 دن میں انتخابی شیڈول جاری کرنا گورنر کےلئے آئینی تقاضا ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین کےآرٹیکل 105 کے تحت یہ گورنر کاآئینی اختیار ہے، پٹیشن میں الیکشن کمیشن کو فریق اس لئے نہیں بنایاگیا کیونکہ انتخابی تاریخ دینا گورنر کا اختیار ہے۔

عدالت نےکہا کہ ہم پاکستان میں ہیں ہم جمہوریت کا تحفظ کریں گے،جمہوریت کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔

جسٹس جواد حسن نے اسد عمر سے استفسار کیا کہ کیا آپ کوان قانونی حوالہ جات کی کاپی کیبنٹ میں ملی،جس پر رہنما تحریک انصاف اسد عمر نے جواب دیا کہ جی میں نے ابھی دیکھی نہیں لیکن یہ یقینی طور پر ایک اہم قانونی نقطہ ہے۔

تحریک انصاف کی جانب سے بیرسٹرعلی ظفر نے دلائل دیے کہ گورنرآئینی طور پر ہر صورت اسمبلی کی تحلیل کے 90 روز میں انتخابات کرانے کا پابند ہے۔

دورانِ سماعت عدالت میں بھارتی اور برطانوی عدالتوں کے بھی حوالہ جات پیش کیے گئے۔

لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ آئین کا دیباچہ شاہراہ کے راستے کا دروازہ ہے، دیباچہ میں ہرچیز واضع طور پر درج ہے، گورنر پہلے بھی خاموش تھے اب اپنی پوزیشن واضح کریں، گورنر کا رویہ سنجیدہ نہیں ہے۔

عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کی جانب سے جواب کے لئے وقت مانگنے پرسخت اظہار برہمی کیا اور کہا کہ کدھر ہیں 200 لاء افسر جو اٹارنی جنرل آفس میں بیٹھے ہیں، 7 لاء افسر میری عدالت میں بیٹھے ہیں سارا کیس سن کےتیاری کی کیسے مہلت مانگ رہے ہیں۔

جسٹس جواد حسن نے کہا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ کتنے لاء افسر موجود ہیں، یہ پاکستان کی جمہوریت کا معاملہ ہے، پٹیشن تو ہفتے کی دائر ہے 48 گھنٹے سے زائد ہوگیا اور آپ وقت مانگنے آگئے ہیں، گورنر پنجاب کا ہرسنپل سیکرٹری کدھر ہے، عدالت کو آدھا گھنٹہ لگے گا کیوں نہ عدالت فیصلہ سنادے۔

لاہورہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ یہ تحریک انصاف کا کیس نہیں پاکستانی عوام کا کیس ہے، گورنرکا نمائندہ آئے یا نہ آئے پرنسپل سیکرٹری تو یہاں ہونا چاہیئے تھا، یہ عدالت کی توہین ہے کہ کسی لاء افسر نے تیاری نہیں کی، میں کراچی میں تھا جب مریم نواز لاہور پہنچیں تو میں نے ائیرپورٹ پر ہی پٹیشن پڑھ کرتیاری کرلی تھی، عدالت نے اتنی کتابیں پڑھی اور تیاری کی مگر یہاں وقت مانگا گیا۔

جسٹس جواد حسن نے پنجاب میں انتخابی شیڈول جاری کرنے کےخلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے وفاقی حکومت، گورنر پنجاب اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا اورمزید سماعت 3 فروری تک ملتوی کردی۔

Lahore High Court

justice jawad hassan