3 سے 262 روپے: پاکستان میں ڈالر کی سیاسی تاریخ
آج کی نوجوان نسل کو یقین نہیں آئے گا، لیکن ان کی پیدائش سے چند سال پہلے تک ڈالر 25 روپے سے کم قیمت پر دستیاب تھا۔ تاہم، گزشتہ 30 سالوں میں امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر تقریباً 100 گنا یا 948 فیصد کم ہوچکی ہے۔
روپے کی اس بربادی کو جب گراف پر پیش کیا گیا اور بھارتی روپے کی قدر سے جوڑا گیا، جیسا کہ ہم نے ذیل میں کیا ہے، تو پتا چلا کہ پاکستان کے ساتھ غلط کیا ہوا۔ اور اب نئی نسل پچھلی تین دہائیوں میں کی گئی ان غلطیوں کو دہرانے سے کیسے بچ سکتی ہے۔
لنک کے ساتھ خلاصہ جات
مسئلہ کا جنم (1950-1971)
یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا میں پروفیسر ورنر اینٹ ویلر کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 1950 کی دہائی میں پاکستانی روپے (PKR) میں امریکی ڈالر کی شرح مبادلہ 3.3 تھی، جبکہ بھارتی روپیہ (INR) 4.76 پر تھا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانی کرنسی ہندوستانی روپے کے مقابلے میں تقریباً 70 فیصد زیادہ مضبوط تھی۔
لیکن بھارتی روپے پر پاکستانی کرنسی کا غلبہ صرف 1956 تک رہا، پھر پاکستانی اور ہندوستی کرنسیاں برابر ہوگئیں، اور امریکی ڈالر پاکستان اور ہندوستان دونوں کو ایک ہی شرح یعنی 4.7 پر دستیاب تھا۔
1956 میں پاکستان اپنا پہلا آئین نافذ کرکے ایک جمہوری ریاست بنا۔ پھر بھی، سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ملک اپنے پہلے مارشل لاء کی طرف بڑھ رہا تھا، جو بالآخر اکتوبر 1958 میں لگ ہی گیا۔
دوسری جانب ہندوستانیوں کی حالت بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں تھی، پاکستان کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد ان کی کرنسی بھی گر گئی۔ 1971 کی جنگ سے پہلے امریکی ڈالر کی شرح تبادلہ پاکستانی روپے میں 4.76 اور بھارتی روپیہ7.49 پر کھڑا تھا۔
افغان ڈالر (1971-1991)
سقوط ڈھاکہ کے ساتھ ہی پاکستانی روپے کی قدر امریکی ڈالر اور بھارتی روپے کے مقابلے میں گر گئی۔ افغان جہاد کے دوران پاکستان کو ڈالر کی مسلسل فراہمی کے باوجود 1991 تک ہندوستانی کرنسی، پاکستانی روپے سے زیادہ مضبوط تھی (اس وقت بھی مغربی میڈیا افغان جنگ کو جہاد کہتا تھا)۔
1988 میں جنرل ضیاءالحق کے طیارہ حادثے میں انتقال کے وقت امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر 18 روپے اور ہندوستانی کرنسی کی 13.91 روپے تھی۔
یہ صورتِ حال بے نظیر بھٹو کے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد بدلنا شروع ہوئی۔
1991 میں، ڈالر کی شرح تبادلہ 23.8 پاکستانی روپے اور بھارتی روپے کی22.74 تھی، یعنی ہندوستانی کرنسی پاکستانی روپے سے 4 فیصد زیادہ مضبوط تھی۔
لیکن 1992 میں پاکستانی روپے کی قدر ہندوستانی روپے سے بڑھ گئی اور امریکی ڈالر 25.08 پاکستانی روپے اور ہندوستانی25.91 میں فروخت ہو رہا تھا۔
ایٹمی دھماکوں سے پہلے اور بعد میں (1992-1999)
پاکستان میں 1990 کی دہائی کو اکثر تاریخ دانوں اور سیاسیات کے ماہرین نے ’گمشدہ دہائی‘ قرار دیا ہے، جو سیاست دانوں کی معیشت جیسے قومی مسائل پر اکٹھے ہونے میں ناکامی کو پاکستان کی مالی پریشانیوں کی ایک بڑی وجہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ہمارے بار کی لکیریں جو پاکستانی اور بھارتی روپے کی شرح مبادلہ کی نشاندہی کرتی ہیں، اس تجزیے کی تصدیق کرتی ہیں۔
روپیہ 1993 میں ہندوستانی کرنسی کے خلاف اوپر آیا اور 1997 تک مضبوط رہا، جب کہ دو سویلین حکومتیں اپنی مدت پوری نہ کر سکیں۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پاکستان کے آئین سے متنازع آٹھویں ترمیم کو ہٹانے کے لیے ہاتھ ملایا۔
1997 کے انتخابات کے ساتھ، جن میں نواز شریف کو تقریباً دو تہائی اکثریت ملی، حالات بدل گئے۔ سیاسی بات چیت کی جگہ بھاری مینڈیٹ کے بھاری ہاتھ نے لے لی۔ عدم استحکام بڑھتا گیا، اور اسی طرح پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر اور بھارتی روپے کی قدر میں اضافہ ہوا۔
حزب اختلاف (اپوزیشن) کی رہنما بے نظیر بھٹو کے خود ساختہ جلاوطنی میں رہنے کے بعد، نواز شریف ایک مطلق العنان بن گئے اور مبینہ طور پر وہ امیر المومنین (مسلمانوں کے رہنما) کا لقب اختیار کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔
پاکستان کے مئی 1998 کے جوہری تجربات نے غیر ملکی کرنسی کا ویسا ہی بحران پیدا کیا، جیسا ہم نے اس ماہ (جنوری 2023) میں تجربہ کیا۔
ہندوستان نے بھی اپنے جوہری تجربات کے باعث بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا کرنے کی وجہ سے خود کو اسی الجھن میں مبتلا پایا۔
تاہم، پرویز مشرف کی طرف سے اکتوبر 1999 کی بغاوت کے چند ماہ بعد پاکستان کے لیے حالات خراب ہو گئے، کیونکہ سویلین حکومت کو گھر بھیجے جانے کے بعد پاکستان کو بین الاقوامی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک نئی افغان جنگ اور ڈالر کی فراہمی (2001-2008)
امریکہ میں 11 ستمبر 2001 (11/9) حملوں سے صرف چند ماہ قبل، ڈالر کی قیمت 63 روپے تک پہنچ چی تھی، کیونکہ پرویز مشرف حکومت دنیا تک پہنچنے اور اکتوبر 1999 کے اپنے اقدام کی منظوری حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔
9/11 اور امریکہ کی طرف سے ”دہشت گردی کی جنگ“ کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی پاکستان دوبارہ مرکزی دھارے پر آگیا تھا۔ اور یہیں سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا۔
مشرف کے بقیہ سات سالوں کے بیشتر حصے میں، پاکستان نے تقریباً 60 روپے کی مستحکم شرح مبادلہ کا لطف اٹھایا۔
نومبر 2007 میں، مشرف نے ملک کے اعلیٰ ترین جج جسٹس افتخار چوہدری کے ساتھ جھگڑے کے بعد ایمرجنسی نافذ کر دی۔ وکلاء کی طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا اور استحکام ہوا میں کہیں غائب ہوگیا۔ یوں پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت بڑھ کر 68 روپے ہوگئی جبکہ بھارتی روپیہ مستحکم رہا۔
استحکام واپس لانے کے لیے مشرف نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ بات چیت کی اور ”شریفوں“ کو واپس آنے کی اجازت بھی دی۔
پرانی جماعتوں کی واپسی (2009-2018)
انتخابات نے سویلین حکومت کو ایک بار پھر اقتدار میں لا بٹھایا۔ لیکن ملک، معیشت اور روپے کو مستحکم کرنے میں چند سال سے زیادہ کا وقت لگنا تھا۔
ڈالر کے مقابلے میں اب نئی شرح تبادلہ پاکستانی80 روپے کے قریب تھی۔
مئی 2011 میں، امریکہ اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں مارنے میں کامیاب ہوا اور عندیہ دیا کہ اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک بڑا مقصد حاصل کر لیا ہے۔
امریکہ اب علاقہ چھوڑنے کی تیاری کر رہا تھا۔ امریکی صدر باراک اوباما نے افغانستان میں فوجیوں کے انخلا کا اعلان کردیا۔
امریکہ اور نیٹو نے دسمبر 2014 میں افغانستان میں اپنا جنگی مشن ختم کر دیا تھا، اور پاکستانی کیلئے ڈالر کی سپلائی لائن اب خشک ہونے والی تھی۔
پاکستان کو ڈالر کے حصول کیلئے نئے ذرائع تلاش کرنے کی اشد ضرورت تھی، شاید برآمداتسے کام چل جاتا۔
لیکن ہم نے کبھی ایسی چیزیں یا خدمات تیار ہی نہیں کیں جن سے ہمیں باقی دنیا سے کافی ڈالر ملتے۔
ایبٹ آباد آپریشن اور جولائی 2017 میں نواز شریف کی نااہلی کے درمیان امریکی ڈالر کی قیمت 86 روپے سے 105 روپے تک پہنچ گئی۔
پاکستانی روپیہ اب ہندوستانی کرنسی کے متوازی چل رہا تھا۔ اس لیے ہم کہہ سکتے تھے کہ پاکستان بھارت کی طرح کچھ اچھا کر رہا تھا یا کچھ برا۔
پھر ایک اضافہ نواز شریف کی برطرفی اور جولائی 2018 میں ہونے والے عام انتخابات کے درمیان نمودار ہوا۔ امریکی ڈالر 105 پاکستانی روپے سے 121 پر چلا گیا۔
عمران خان کے چار سال (2018-2022)
2013 اور 2016 کے درمیان پاکستان نے کل 22 میں سے واحد آئی ایم ایف پروگرام مکمل کیا، جو نواز شریف کے دور میں ہوا۔
تاہم، پاناما لیکس کیس اور خاص طور پر نواز شریف کی نااہلی کے بعد ملک کو آٹو پائلٹ پر چھوڑ دیا گیا اور معیشت تیزی سے بگڑتی چلی گئی۔
عمران خان جب برسراقتدار آئے تو آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کی بازگشت ہوئی۔ اسد عمر جو عمران خان کے پہلے وزیر خزانہ تھے، انہوں نے تاخیر کی اور ہچکچاتے ہوئے فنڈ سے رجوع کیا۔ اسد عمر کی برطرفی کے بعد قرض کی منظوری دیدی مل گئی۔
عمران خان کی جانب سے کی جانے والی اس تاخیر کی وجہ سے امریکی ڈالر پاکستانی روپے کے مقابلے 163 روپے تک بڑھ گیا۔
آئی ایم ایف پروگرام نے معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد کی، جب کہ سیاسی استحکام کی ضمانت ”ایک پیج“ پر رہنے کے منتر نے فراہم کی، جس نے سویلین اور فوجی قیادت کے درمیان ایک نادر ہم آہنگی متعارف کرائی۔
2021 میں پاکستانی روپیہ قدرے مضبوط ہوا۔ ایکسچینج ریٹ جون 2020 میں 167 روپے سے جون 2021 میں 157 روپے تک گر گیا۔
تاہم، چند مہینوں میں یہ دوبارہ بڑھنا شروع ہو گیا۔
ملک میں عدم استحکام لوٹتے ہی ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہا۔
جب عمران خان کو 9 اپریل کو ہٹایا گیا تو ڈالر 184 روپے میں فروخت ہورہا تھا۔
دوبارہ پرانے چہرے (اپریل 2022 سے حالیہ دور)
عمران خان کو ہٹانے سے 14 اپریل 2022 تک کرنسی کی قدر صرف دس دنوں کے لیے بہتر ہوئی روپیہ کا ہوگیا۔ لیکن 20 اپریل کو امریکی ڈالر دوبارہ 185 پر ٹریڈ کر رہا تھا۔
جس کسی کو بھی یہ توقع تھی کہ عمران خان ان برطرفی کے بعد سیاسی منظر نامے سے کنارہ کشی اختیار کر لیں گے، تو ان کی اس امید پر پانی پھر گیا۔
عمران خان نے اپنی تقریروں کی براہ راست نشریات پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد حالیہ ہفتوں میں احتجاج، روزانہ کی پریس ٹاکس اور یہاں تک کہ ویڈیو خطاب کے ذریعے اپنے بیانیے کو آگے بڑھایا۔
لیکن اس سے عدم استحکام میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ہماری کرنسی کے مستحکم ہونے کا امکان اس وقت تک نہیں ہے، جب تک کہ ملک کی سیاسی قوتیں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ نہ جائیں۔
ایسا یا تو سیاسی بات چیت کے ذریعے ہوسکتا ہے، جیسا کہ ہم نے 1990 کی دہائی کے اوائل میں مختصر طور پر دیکھا تھا۔ لیکن وہ صرف ایک جھلک تھی۔
یا ایک اور ”ایک پیج“ کے نظریے کے ساتھ کسی دوسرے مطلق العنان حکمران کے تحت نئی حکومت متعارف کروائی جائے، جس پر حزبِ اختلاف مصر ہے۔
Comments are closed on this story.