Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

کیماڑی میں زہریلی گیس کے اخراج سے 18 اموات کیسے ہوئیں

بچوں اور خواتین کی اموات مضر صحت میٹریل کے غلط ٹریٹمنٹ سے ہوئی، ماہر ماحولیات
شائع 27 جنوری 2023 09:35pm
فوٹو — فائل
فوٹو — فائل

کماڑی کے محمد علی گوٹھ میں 18 اموات ہوئیں جس کے بعد محکمہ صحت اور ڈی ایچ او کیماڑی کی ٹیم نے علاقے کا دورہ کیا۔

محکمہ صحت سندھ کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یہ اموات 16 دنوں میں ہوئیں، مرنے والوں میں بچوں سمیت تمام عمر کے افراد شامل ہیں، متوفیوں میں موت کی علامات میں بخار، گلے کی سوزش، سانس لینے میں تکلیف پانچ سے سات دن تک برقرار رہی۔

تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کسی جسم پر کوئی نشانات نہیں ملے جس کا مطلب ہے کہ مرنے والے بچوں اور دیگر افراد کو خسرہ نہیں، مقامی لوگوں کے مطابق علاقے کی ہوا میں شدید بدبو ہے۔

ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ اموات کسی کیمیکل کے فضاء میں شامل ہونے کے بعد پھیپھڑوں کے متاثر ہونے سے ہورہی ہیں، محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ علاقے میں متاثرہ افراد کو نمونیہ سمیت پھیپھڑوں کے مرض کی ادویات دی جارہی ہیں۔

گزشتہ روز ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کیماڑی (ڈی ایچ او) کا کہنا تھا کہ اموات کی وجہ جانچنے کے لئے تحقیقات جاری ہیں، متاثرہ علاقے میں کیمپ لگایا جہاں طبی ماہرین نے لوگوں کے خون کے نمونے لیکر لیبارٹری بجھوائے۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کیماڑی میں مبینہ زہریلی گیس سے ہلاکتوں کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کراچی،ڈی جی ہیلتھ او لیبر ڈپارٹمنٹ سے رپورٹ طلب کرلی۔

وزیراعلیٰ سندھ نے محکمہ محنت،محکمہ صنعت اور ضلعی انتظامیہ سے واقعہ کی انکوائری کرنے کی ہدایت کردی۔

وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ یہ کون سی فیکٹریز ہیں جن سے نقصان دہ گیس کا اخراج ہو رہا ہے؟ کیا ان فیکٹریز کی کبھی انسپیکشن کی گئی ہے؟ وزیراعلیٰ نے متاثرہ خاندانوں سے دلی ہمدردی کی ہے۔

اب تک کیا عملدرآمد ہوا؟

  • علاقے میں فیکٹریوں کو ضلعی انتظامیہ کے ذریعے سیل کردیا گیا۔
  • ڈی سی، ڈی ایچ او، ڈی ایچ ایس اور محکمہ ماحولیات نے مشترکہ متاثرہ
  • علاقے کا دورہ جب کہ معاملے پر میڈیا کو بریفنگ دی گئی۔
  • مواچھ گوٹھ میں قریبی صحت کی سہولت کو الرٹ کردیا گیا،او پی ڈی آنے میں آنے والے مریضوں کو تمام ضروری علاج فراہم کرنے کے لیے تمام ضروری ادویات اور دیگر سامان سے لیس ہے۔
  • متاثرہ علاقے میں 24 گھنٹے کیمپ لگایا گیا جو متاثرین کو طبی خدمات فراہم کر رہا ہے۔
  • ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز، سندھ اور ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کراچی کے ذریعے کیمپوں اور فیلڈ سرگرمیوں کے لیے کافی طبی عملہ فراہم کیا گیا۔
  • ڈی ایچ او اور ڈی ایچ ایس کے ذریعے کیمپ اور صحت کی سہولیات کے لیے تمام ضروری طبی سامان کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
  • ایمبولینس سروس 24 گھنٹے دستیاب ہے۔
  • ڈی ایچ او اور ڈی ایچ ایس کی طرف سے قریبی پرائیویٹ ٹرٹیری اسپتال، مرشد اور روتھ کے ایم فاؤ سول اسپتال ضرورت پڑنے پر آئسولیشن وارڈ او آئی سی یو میں علاج اور داخلے کی فراہمی کے حوالے سے یقینی بنایا گیا ہے۔
  • مشتبہ خسرہ کے بے ترتیب نمونے اکٹھے کرکے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ بھیجے گئے ہیں۔
  • علاقے میں ٹی بی کے نمونے جمع کرنے کے ساتھ ایک موبائل ایکس رے وین کا انتظام کیا گیا ہے۔
  • علاقے میں کرونا سیمپلنگ بھی کی جا رہی ہے۔
  • فیلوز کی ایک ایپیڈیمولوجی ٹیم ڈی جی ہیلتھ، سندھ کے توسط سے ضلع/علاقے میں متعین کی گئی تاکہ واقعے کی صحیح وجہ کی تحقیقات کی جا سکیں اور متوفی کی گہرائی سے معلومات اکٹھی کی جا سکیں۔
  • ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور ساحلی ترقی کی ایک ٹیم سے بھی درخواست کی جاتی ہے کہ وہ بورڈ میں شامل ہوں اور علاقے میں اموات کی ممکنہ وجہ کا پتہ لگانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

اصل معاملہ کیا ہے اور گیس کا اخراج کہاں سے ہو رہا ہے؟

ماہر محولیات ثاقب اعجاز نے آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیکٹری میں لیڈ، بیٹری کا پلاسٹک اور ایسڈ کو ٹریٹ کیا گیا ہے، مواچھ گوٹھ کے علاقے میں ایک عرصے سے ایسی فیکڑیاں کام کر رہی ہیں اور سیپا اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا۔

ثاقب اعجاز نے بتایا کہ لیڈ اور بیٹری کا پلاسٹک جلنا بہت زیادہ خطرناک عمل ہے، اس کے دھویں کے ذرات ہوا کے ذریعے خون میں داخل ہوتے ہیں، بچوں اور خواتین کی اموات مضر صحت میٹریل کے غلط ٹریٹمنٹ سے ہوئی، البتہ رپورٹس میں لازمی لیڈ اور بیٹری پلاسٹک کی موجودگی ملے گی۔

ڈی ایچ او کیماڑی کے مطابق متعلقہ علاقے میں آئل،گریس،خام لوہا نکالنے کی فکیٹریاں لگی ہیں، تمام لوگوں کی ہلاکتیں پھیپھڑے ناکارہ ہونے کی وجہ سے ہوئی ہیں، علاقے میں آلودگی زیادہ ہونے کی وجہ سے سانس لینے میں بھی دشواری ہے۔

انتظامیہ نے کارروائی کرتے ہوئے پلاسٹک بنانے والی تین فیکٹریاں سیل کردیں جبکہ ایک فیکٹری مالک سمیت 5 افراد کو گرفتار کرلیا۔

رہائشی علاقوں میں فیکٹریاں بنانے پرمکمل پابندی اورمتعدد بارشکایات کے باوجود ایکشن کیوں نہ ہوسکا،ضلعی انتظامیہ نے ملبہ علاقہ پولیس پرڈال دیا تھا۔

karachi

kemari