Aaj News

منگل, نومبر 05, 2024  
02 Jumada Al-Awwal 1446  

باجوڑ میں زیر زمین پانی میں کمی، موسمیاتی تبدیلی سے گندم کی کاشت متاثر

کسان کاشتکاری سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگے۔
شائع 26 جنوری 2023 05:20pm
تصویر بزریعہ مصنف
تصویر بزریعہ مصنف

ضلع باجوڑ میں زیر زمین پانی 32.79 فٹ نیچے چلاگیا ہے، پانی کی کمی کیوجہ سے زراعت کا شعبہ بھی کافی متاثر ہورہا ہے۔

باجوڑ کے علاقہ جار ملاکلے سے تعلق رکھنے والے 36 سالہ ثواب گل آج کل سعودی عرب کے شہر ریاض میں محنت مزدوری کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ اس سے قبل وہ باجوڑ میں چاول اگاتے تھے، لیکن پانی کی کمی کی وجہ سے اُنہوں نے یہ روزگار ہمیشہ کیلئے چھوڑ دیا۔

چارسال قبل یعنی 2018ء میں وہ سعودی عرب جانے پر مجبور ہوئے۔ کیونکہ جس علاقے میں وہ چاول اگاتے تھے وہاں پانی کی کمی کی وجہ سے انہیں یہ کام چھوڑنا پڑا۔

ثواب گل کہتے ہیں کہ پانی کی کمی کی وجہ سے حکومت نے راغگان ڈیم بنایا۔ جب ڈیم پانی سے بھردیا گیا تو ہم نے یہ کام چھوڑ دیا کیونکہ پانی کم ہوگیا۔

ثواب گل کا کہنا ہے کہ سیزن میں اتنے چاول پیدا کرتے تھے کہ اگلے سیزن تک ہمارے کھانے کا بندوبست ہوتا تھا اور 60 ہزار روپے تک فروخت بھی کرتے تھے۔ اس کے علاوہ باقی رہ جانے والے کچرے کو بھی فروخت کرتے تھے جس سے تقریباَ 40 ،50 ہزار روپے ملتے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ راغگان ڈیم جس مقصد کیلئے بنایا تھا وہ مقصد ابھی تک پورا نہیں کیا گیا، الٹا جار اور ملحقہ علاقوں میں زراعت کے شعبے سے وابستہ زمینداروں کو کافی نقصان اُٹھانا پڑا، کیونکہ راغگان ڈیم میں پانی جمع ہونے سے ہمارے کھیتوں کو پانی نہیں جاتا۔

کفایت خان گزشتہ دو دہائیوں سے زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پانی کی کمی کی وجہ سے وہ کھیت جو کہ 4 ٹن گندم دیتے تھے اب مشکل سے 2 ٹن دیتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر آبپاشی ٹیوب ویل پر ہو تو پیداوار زیادہ ہوتی ہے، لیکن آج کل زیادہ تر ٹیوب ویل بھی خشک ہوئے ہیں اور زمینداروں کو سارا انحصار بارش کے پانی پر ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ رواں سال بارشیں زیادہ ہوئی ہیں جس سے گندم اور مکئی کی پیداوار زیادہ ہوئی تھی، لیکن بارش نہ ہونے کی صورت میں ذیادہ تر زمیندار اپنے کھیتوں پر لگائے گئے اخراجات بھی پوری نہیں کرسکتے۔

باجوڑ زراعت کیلئے موذوں لیکن اگر پانی دستیاب ہو تو

 تصویر بزریعہ مصنف
تصویر بزریعہ مصنف

محکمہ زراعت کی ویب سائٹ سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق ضلع باجوڑ ایک زرخیز زمین ہے اور ہر قسم کی فصلیں جیسے اناج، (گندم، مکئی، چاول، جو وغیرہ)، سبزیاں (ٹماٹر، کھیرا، شلجم، مٹر، مولی، گوبھی، گوبھی کیکربٹ وغیرہ) اور پھلوں کے باغات، (بیر، آڑو، کھجور، اخروٹ، زیتون، خوبانی وغیرہ) اگر آبپاشی کا پانی دستیاب ہو تو اگائے جاسکتے ہیں۔

یہاں کل کاشت شدہ رقبہ یعنی 77000 ہیکٹر ہے جس میں سے صرف 12000 ہیکٹر رقبہ کو مختلف ذرائع سے سیراب کیا جاتا ہے۔

اس لیے پانی کی دستیابی کے ذرائع کا قیام روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کی ضرورت کے لیے انتہائی اہم ہے۔

ویب سائٹ پر فراہم کی گئی معلومات کے مطابق ضلع باجوڑ کا جغرافیائی رقبہ 129035 ہیکٹر ہے۔ کاشت شدہ رقبہ 77700 ہیکٹر، فصل کا رقبہ 70000 ہیکٹر، سیراب شدہ رقبہ 17000 ہیکٹر، قابل کاشت بنجر زمین 12000 ہیکٹر اور جنگلی علاقہ 25000 ہیکٹر ہے۔

ضلع باجوڑ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے متاثرہ اضلاع کے فہرست میں چوتھے نمبر پر

پانی کے غیر ضروری استعمال سے خیبر پختونخواہ کے پانچ اضلاع میں زیر زمین پانی خطرناک حد تک نیچے چلا گیا، پانی کی سطح مزید تیزی کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے۔

وزارت آبی وسائل کی جانب سے سینیٹ میں جمع کرائی گئی دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ خیبر پختونخواہ کے پانچ اضلاع کا زیر زمین پانی خطرناک حد تک نیچے جارہا ہے اور گزشتہ دس سال میں زیر زمین پانی 25 سے 74 فٹ تک نیچے جاچکا ہے۔

خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر اسی رفتار سے پانی کی سطح کم ہوتی رہی تو آئندہ چند سال میں ان اضلاع میں خشک سالی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

تحریری جواب کے مطابق خیبر پختونخواہ میں 28 اضلاع ایسے ہیں جہاں زیر زمین پانی مسلسل نیچے جارہا ہے اور اس میں پانچ اضلاع سب سے ذیادہ متاثر ہیں، جن میں سب سے ذیادہ متاثر ہونے والا ضلع خیبر ہے، جہاں گزشتہ 10سال میں زیر زمین پانی 74 فٹ نیچے چلا گیا ہے، دوسرے نمبر پر ضلع ہری پور ہے جہاں گزشتہ 10سال میں زیر زمین پانی61.50 فٹ نیچے چلاگیا ہے، تیسرے نمبر پر ضلع مہمند ہے جہاں زیر زمین پانی 57.42 فٹ نیچے چلاگیا ہے، چوتھے نمبر پر ضلع باجوڑ ہے جہاں زیر زمین پانی 32.79 فٹ نیچے چلاگیا ہے، پانچویں نمبر پر ضلع کرم ہے جہاں زیر زمین پانی 25.75فٹ نیچے چلاگیاہے۔

دستاویزات کے مطابق گزشتہ دس سال میں زیر زمین پانی مسلسل نیچے جارہاہے اور ہر سال اس کے شدت میں اضافہ ہورہاہے۔

گندم پر کلائمٹ چینج کے اثرات

 تصویر بزریعہ مصنف
تصویر بزریعہ مصنف

پی ایچ ڈی سکالر اور زرعی ماہر ذاکر اللہ کا کہنا ہے کہ پچھلے سال بے وقت بارشوں کے وجہ سے گندم کی فصل آدھے سے زیادہ کم ہوئی ہے ۔ اور بروقت بارشیں ہونے کے وجہ سے 2008 کے بعد رواں سال پہلی بار مکئ کی فصل ہوئی ہے۔

پہلے ہم باجوڑ میں 15 اکتوبر سے گندم کاشت کرنے کی ہدایات جاری کرتے تھے اب ہم زمینداروں کو 25 اکتوبر کے بعد ہی گندم کاشت کرنے کا کہتے ہیں کیونکہ مطلوبہ ٹمپریچر میسر نہیں ہوتا اور یہ فرق موسمیاتی تبدیلی کے باعث آیا ہے۔

ذاکراللہ کا مزید کہنا تھا کہ پہلی باجوڑ میں سردیوں کا سیزن طویل ہوتا تھا اور مارچ میں بہار ہوتا۔ اب فروری میں پودے پھول نکلتے ہیں اور کچھ ہی دن دوبارہ سردیاں آجاتی ہیں۔ جس کے وجہ سے وہ پھول دوبارہ مرجھا جاتے ہیں اور پھل دینے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے تک باجوڑ میں وسیع پیمانے پر چاول کی کاشت کی جاتی تھی۔ مگر یہاں پانی کے چشمے سوکھ گئے ہیں اور ندی نالوں میں بہنے والے پانی آنا بند ہوگیا ہے جس کے وجہ سے چاول کی فصل کاشت ہونا ختم ہوگئی ہے۔

اسی طرح 2050 تک بارشوں کی شدید قلت ظاہر کی گئی ہے، بارشوں کا سطح نہایت کم ہوگئی ہے۔

باجوڑ محکمہ زراعت میں سبجیکٹ میٹر کے پوسٹ پر تعینات اۤفیسر محمد ادریس کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے 2015 کے بعد زمینداروں کو گندم اور دیگر فصلوں میں کمی واقعی ہوئی ہے۔

مارچ اپریل میں بارشیں ذیادہ ہوتی ہیں جس کی وجہ سے گندم کا دانہ ٹھیک طریقے سے نہیں بنتا۔ جب بارشیں رک جاتی ہیں تو سورج کی دھوپ تیز ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سرخی نامی بیماری فصلوں کو لگ جاتی ہے۔

محمد ادریس کا مزید کہنا تھا کہ مئی کے مہینے میں جو گندم کے کٹائی کا منصوبہ ہوتا ہے اس میں بارشیں ذیادہ ہوجاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے گندم کی کوالٹی متاثر ہوجاتی ہیں اور بوسہ بھی خراب ہوجاتی ہیں۔

خیبر پختونخوا کا 62 فیصد حصہ بارانی ہے جب بارشیں ٹائم پر نہیں ہوتی۔ اور کبھی کم اور کبھی ذیادہ ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے زمینداروں کو نقصان پہنچتا ہے۔

سرخی بیماری جس کو انگریزی میں (Rust) کہا جاتاہے، اس کے اثرات کھیت میں باقی رہ جاتا ہے۔ اور اگلے سال بھی یہ بیماری گندم کی فصل کو لاحق ہوتی ہے ۔

جس کی وجہ سے اگلے سال بھی فصل متاثر ہوتی ہے۔ اس کے حل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے محمد ادریس نے بتایا کہ اس کیلئے ریسرچ کی ضرورت ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ کونسا تخم ماحول دوست ہے۔ جس سے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے منفی اثرات ختم ہوں اور نقصانات کا ازالہ ہوسکے۔

ضلع باجوڑ کے محکمہ زراعت سے جب گزشتہ کئی سالوں کی دوران فصلوں میں کمی واقع ہونے کے حوالے سے اعداد شمار معلوم کرنے کی لئے رابطہ کیا گیا تو محکمہ نے معذرت کی اور کہا کہ باجوڑ میں ابھی تک اس کا کراپ ڈیٹا ہم نے جمع نہیں کیا ہیں۔

باجوڑ میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مخلتف فصلوں پر اثرات کم کرنے اور علاقے میں اس پر ریسرچ کی حوالے سے پوچھا گیا تو اس حوالے سے بھی محکمہ زراعت باجوڑ کے ڈاریکٹر محمد سعید کا کہنا تھا کہ ابھی تک اس پرکوئی ریسرچ نہیں کی ہے۔ تاہم باجوڑ میں سرکاری سطح پر ایک ریسرچ سنٹر زیر تعمیر ہے جس کے بعد ہم اس پر کام بھی کرینگے۔

محکمہ ایری گیشن باجوڑ کے آفیسر عمر حنیف کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں اوسطاَ 20 سے 22 فٹ تک پانی سطح نیچے چلاگیا ہے ۔ علاقہ برترس اور خار میں پانی 10 سے 15 فٹ نیچے چلاگیا ہے۔ تحصیل سلارزئی اور ماموند میں پانی کی سطح 15 سے 20 فٹ نیچے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناوگئی اور ماندل میں پانی کی سطح 30 فٹ تک نیچے چلاگیا۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کیلئے محکمہ ایریگیشن چیک ڈیمز بنارہے ہیں۔ اس کے علاوہ چھوٹے ریزروائر ڈیم بھی بنارہے ہیں تاکہ ان علاقوں میں پانی کی سطح مزید نیچے نہ جائے۔

climate change

Bajaur

Crops in Pakistan