دنیا کا سب سے بڑا خزانہ وراثت میں پانے والے نظام مکرم جاہ کون تھے
حیدرآباد کی سلطنت میں نظام شاہی کے 8 ویں نظام نواب برکت علی خان والاشان مکرم جاہ بہادر89 برس کی عمر میں رواں ہفتے استنبول میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔
نواب مکرم جاہ کی تدفین کمل سرکاری اعزاز کے ساتھ حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد کے کھنڈاری قبرستان میں کی گئی اوران کے دفتر سے جاری بیان میں وفات کی تصدیق بھی کی گئی۔
ان کی آخری رسومات تلنگانہ حکومت نے سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کیں۔
اربوں کی جائیداد وراثت میں پانیوالے کرم جاہ بہادر کون تھے؟
میرعثمان علی خان بہادرنے 1948 تک حیدرآباد پر حکومت کی تھی وہ ساتویں نظام تھے، مکرم جاہ بہادران کے پوتے تھے۔ بھارتی اخبار کے مطابق عثمان علی خان نے اپنے بیٹوں کو نظرانداز کرکے مکرم جاہ کو اپنا جانشین مقررکیا تھا۔
بھارتی اخبار نے مزید بتایا کہ مکرم جاہ بہادرکی 1967 میں تاج پوشی کی گئی تھی جس کے بعد وہ حیدرآباد کی سلطنت کے آٹھویں نظام بن گئے تھے۔ تاج پوشی کے بعد مکرم جاہ بہادر بھارت سے آسٹریلیا چلے گئے جہاں انہوں نے کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد ترکی میں مستقل رہائش اختیارکرلی تھی۔
دوسری جانب حیدرآباد سے شائع ہونے والے روزنامہ ’سیاست‘ کا کہنا ہے کہ سلطنت کے ساتویں نظام کے جانشین کے طور پر مکرم جاہ دنیا کے سب سے بڑے خزانے کے مالک بن گئے تھے، لیکن انہوں نےعیش وعشرت کی زںدگی گذارنے کے لیے اپنی پوری دولت لٹا دی۔
مکرم جاہ کو250 ارب روپے کی جائیداد وراثت میں ملی تو ان کی عمر30 برس تھی لیکن پرتعیش طرز زندگی کے باعث آخری ایام میں انہیں 2 کمروں کے فلیٹ میں رہنا پڑا۔
واضح رہے کہ حیدرآباد کی سلطنت کا آغاز 1724 میں نظام الملک سے ہوا تھا اور نظام خاندان نے حیدرآباد دکن پر 1724 سے 1948 تک حکومت کی تھی۔
مکرم جاہ کے دادا ساتویں نظام
آصف جاہ مظفر الملک سرعثمان علی خان برطانوی حکومت کے بہت وفادار تھے ، وہ 1911 میں حیدرآباد کی شاہی ریاست کے حکمران بنے تھے جبکہ22 فروری 1937 کو ٹائم میگزین نے میر عثمان علی کو دنیا کا امیر ترین آدمی قرار دیا تھا۔
اس کے علاوہ سلطنت کے ساتویں نظام کے پاس 282 قیراط والا ہیرا تھا، جو دنیا کے سب سے بڑے ہیروں میں سے ایک ہے، کہا کہ جاتا ہے کہ ہیراایک لیموں کے جیسا نظر آتا تھا۔
سلطنت کے ساتویں نظام کی وفات 24 فروری 1967 کو ہوئی تھی۔
Comments are closed on this story.