عراق میں گلف کپ کے دوران بھگدڑ، دو افراد ہلاک 80 سے زائد زخمی
عریبین گلف کپ کے فائنل سے قبل جنوبی عراق کے شہر بصرہ میں اسٹیڈیم کے باہر بھگدڑ مچنے سے کم از کم دو افراد ہلاک اور 80 کے قریب زخمی ہوگئے۔
عراقی خبر رساں ایجنسی نے طبی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویش ناک ہے۔
جمعرات کو شام 7 بجے ہشت ملکی عریبین گلف کپ کے فائنل میں میزبان عراق کا مقابلہ عمان سے ہونا ہے۔
اس نایاب ہوم انٹرنیشنل میچ کو دیکھنے کی امید میں صبح سے ہی ہزاروں شائقین بغیر ٹکٹ کے اسٹیڈیم کے باہر جمع تھے۔
اسٹیڈیم کے اندر موجود اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر نے بتایا کہ جس وقت بھگدڑ مچی تو دروازے تب تک بند تھے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصاویر میں اسٹیڈیم کے باہر لوگوں کا ایک سمندر دکھائی دے رہا ہے۔
اسٹیڈیم کے قریب رپورٹنگ کرنے والے صحافی اسماعیل عدنان نے صورتِ حال کو “ شدید افراتفری“ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ واضح نہیں ہے فائنل ہوپائے گا یا نہیں۔
الجزیرہ کے سمر یوسف نے بغداد سے رپورٹنگ کرتے ہوئے کہا کہ عراقی وزارت داخلہ نے اس سے قبل صرف ٹکٹ ہولڈرز کو ہی فائنل میچ میں شرکت کے لیے اسٹیڈیم جانے کا کہا تھا، جبکہ متعدد افراد بنا ٹکٹ کے اسٹیڈیم میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
الجزیرہ کے احمد جاسم لائنز نے بصرہ سے رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا کہ اسٹیڈیم کے باہر 60,000 سے زیادہ تماشائی موجود تھے۔
جاسم نے کہا، ”کل رات سے ہی ہزاروں لوگ وہاں پہنچ چکے تھے اور کچھ سڑکوں پر ہی سوئے تھے، جس کی وجہ سے سڑکیں بند ہو گئیں اور اضافی سیکیورٹی فورسز کو بھیڑ کنٹرول کرنے کے لیے آنا پڑا۔“
اس سے قبل عراق اپنے پڑوسی ملک کویت سے معافی مانگنے پر مجبور ہوا تھا۔ کیونکہ مہینے کے شروع میں وی آئی پی سیکشن میں ہونے والے جھگڑے کی وجہ سے کویتی لیڈر کے نمائندے کو افتتاحی تقریب میں شرکت سے روک دیا گیا تھا۔
یہ ٹورنامنٹ 6 جنوری کو شروع ہوا، جس میں خلیج تعاون کونسل کے چھ ممالک بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ یمن اور عراق کی ٹیمیں شامل تھیں۔
1979 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ عراق نے ٹورنامنٹ کی میزبانی کی ہے۔
الجزیرہ کے محمود عبد الواحد نے بصرہ سے رپورٹ کیا کہ، ”عراقی فٹ بال فیڈریشن کے مطابق، تقریباً 90 فیصد ٹکٹ پہلے ہی فروخت ہو چکے تھے، جس سے بہت سے عراقی فٹ بال شائقین پریشان تھے، ان میں سے کچھ نے کئی میل کا سفر کیا تھا تاکہ کھیل میں شرکت کرسکیں۔“
عبدالواحد نے بتایا کہ ”دیگر ممالک، خاص طور پر خلیجی ریاستوں سے دسیوں ہزار لوگ بصرہ آئے ہیں جس سے شہر کے پہلے سے ہی کمزور انفراسٹرکچر پر مزید دباؤ پڑ گیا ہے۔“
”حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کے خصوصی پروگرام کی میزبانی کے لیے خود خوش قسمت سمجھتے ہیں، لیکن شہر اس طرح مکمل طور پر تیار نہیں ہے جتنا ہونا چاہیے۔ بصرہ پچھلی دہائیوں میں کئی مسائل سے دوچار رہا ہے جیسے کہ خدمات کی کمی، سیکورٹی ویکیوم اور حال ہی میں بہت سے تنازعات۔“
عبدالواحد نے کہا کہ بغداد کی مرکزی حکومت نے بصرہ کے لیے کوئی ترقیاتی منصوبہ نہیں بنایا، اس حقیقت کے باوجود کہ بصرہ ایک امیر شہر ہے اور 70 فیصد عراقی تیل یہاں سے آتا ہے، یہ شہر اب بھی مشکلات کا شکار ہے اور یہ جزوی طور پر پسماندہ ہے۔“
Comments are closed on this story.