ملک میں 4 سے 5 ہفتوں کیلئے پیٹرول موجود، کیا قلت پیدا ہو سکتی ہے؟
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس تقریباً 4 بلین ڈالر کے ذخائر باقی ہیں اور اب وہ وقت دور نہیں جب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ڈالر نہ ملنے کی صورت میں اشیائے ضروریہ کی بڑے پیمانے پر قلت پیدا ہوگی۔
قلت کی اس فہرست میں سب سے اوپر ہے توانائی کی مصنوعات، خاص طور پر پٹرولیم۔ ملک میں تقریباً 30 دن کا ڈیزل (ہائی اسپیڈ ڈیزل) اور 18 دن کا پٹرول موجود ہے۔
اس کے بعد منصوبہ ہے کہ ریفائنریوں اور آئی مارکیٹنگ کمپیوں سے پٹرولیم مصنوعات درآم کی جائیں۔
لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) فی الحال مزید 15 سے 20 دنوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ملک میں 4 سے 5 ہفتوں کا پیٹرول اور 6 سے 7 ہفتوں کا ہائی اسپیڈ ڈیزل موجود ہوگا۔
عام حالات میں یہ کوئی خطرناک صورت حال نہیں ہوتی۔ لیکن آج کے حالات میں ہمارے پاس وہ تمام وجوہات موجود ہیں جو پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ ایل سیز کھولنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
حال ہی میں، پٹرولیم کمپنیوں کے اعلیٰ افسران کو ایل سیز قائم کرنے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کرنا پڑا لیک آگے جا کر اس سے بھی کام چلتا نظر نہیں آرہا۔
حکومت کچھ عرصے کے لیے پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کی ایل سیز کھول سکتی ہے جو ملک کی 45 فیصد پٹرولیم ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ جبکہ کچھ ضروریات مقامی ریفائنریوں کے ذریعے کور کرنی پڑتی ہیں، جو مقامی خام تیل پر 30 فیصد پیداوار پر انحصار کرتی ہیں، جبکہ باقی درآمد کیا جاتا ہے۔
ملک میں پٹرولیم مصنوعات کا بالکل خاتمے کا خدشہ نہیں، لیکن متعدد سیکٹرز میں قلت پیدا ہوگی جس کا اثر بہت زیادہ ہوگا۔
یہ فرض کرتے ہوئے کہ تازہ درآمدات پر کوئی ایل سیز نہیں کھل رہیں، قلت 2 سے 4 ہفتوں میں شروع ہو سکتی ہے۔
جیسے ہی اسٹاک بھرنا شروع ہو گا، ذخیرہ اندوزی شروع ہو جائے گی، خاص طور پر ہائی اسپیڈ ڈیزل کو ذخیرہ کیا جائے گا کیونکہ اسے آسانی سے ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح سپلائی محدود ہو جائے گی، اور پٹرول کی مجموعی سپلائی خطرناک حد تک نچلی سطح تک پہنچنا شروع ہو جائے گی۔
آئل مارکیٹنگ کمپنیز اسٹاک کو مزید چند ہفتوں تک بڑھانے کے لیے خود بھی ذخیرہ اندوزی سے کام لے سکتی ہیں۔
تاہم، اگر پی ایس او جزوی درآمدات جاری رکھتا ہے تو مارچ میں قلت شروع ہو سکتی ہے اور اپریل میں صورتِ حال مزید خراب ہو سکتی ہے، اسٹیٹ بینک کے ذخائرمیں اضافہ نہ ہونے کی صورت میں یہ ممکنہ منظر نامہ ہوگا۔
اپریل میں جیسے ہی گندم کی کٹائی شروع ہوتی ہے ہائی اسپیڈ ڈیزل کے استعمال میں عروج کا موسم شروع ہوجاتا ہے، اگر اس وقت ڈیزل کی قلت پیدا ہوجائے تو گندم کی فصل میں نقصان کا خطرہ ہو گا۔ اگر ایسا ہوا تو چند ماہ بعد خوراک کی شدید قلت ہو جائے گی۔
سعودی عرب کی مؤخر تیل کی سہولت کی وجہ سے کچھ خام تیل کی درآمدات اسٹیٹ بینک کے کھاتے میں بغیر کسی ڈالر کے جاری رہیں گی۔
یہ مقامی خام تیل کے استعمال کے ساتھ مقامی ریفائنریز کو جزوی طور پر کام جاری رکھنے کی اجازت دے گا۔
لیکن یہاں ترجیح دفاع کو دی جاسکتی ہے، ایئر فورس اور جنرل ایوی ایشن کے لیے جیٹ فیول کی فراہمی کو ترجیح دی جائے گی۔
اس دوران موسم گرما آئے گا اور ایئر کنڈیشننگ کی ضروریات کے لیے توانائی کی طلب عروج پر ہوتی ہے۔ اس کے لیے گیس (ایل این جی) کی درآمدات اہم ہو جائیں گی۔
ملک کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ محدود اور گرتی ہوئی برآمدات اور ترسیلات زر کے اندر کیا درآمد کرنا ہے۔ دیگر ایندھن جیسے کوئلہ اور فرنس آئل کی درآمدات کم ہوں گی۔
اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پوش شہری علاقوں میں بھی طویل گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہوگی۔ پھر امیروں اور کاروباریوں کے لیے اسٹینڈ بائی جنریٹرز چلانے کے لیے ڈیزل دستیاب نہیں ہوگا۔ چند لیٹر پیٹرول کے لیے پیٹرول اسٹیشنوں پر لمبی لائنیں لگیں گی۔
اس سب کا مطلب بہت سے کاروبار جو ریٹیل سیگمنٹ میں ٹھیک کام کر رہے ہیں، بڑے پیمانے پر متاثر ہو رہے ہیں۔
ذکر کرنے کی ضرورت نہیں، مینوفیکچرنگ انڈسٹری ایک ایک کر کے بند ہو رہی ہے، اور جو کام کر رہے ہیں وہ صرف جزوی طور پر کر رہے ہیں۔ حالات مزید خراب ہوں گے۔
پاکستان کو ڈالر کا بندوبست کرنا ہوگا، ورنہ قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Comments are closed on this story.