Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

انسانی فضلے سے اگائی گئی سبزیاں کھانے لائق ہیں؟

کیا انسانی فضلے سے اگائی گئی سبزیاں واقعی مضر صحت ہیں؟
شائع 17 جنوری 2023 06:44pm
تصویر بزریعہ اے ایف پی
تصویر بزریعہ اے ایف پی

پاکستان میں کسان کھاد کیلئے پریشان ہیں، لہیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) بند ہونے سے خام مال دستیاب نہ ہونے کی صورت میں کھاد کی قلت پیدا ہوچکی ہے۔

ایسے میں ضروری ہوگیا ہے کہ فصلوں کیلئے متبادل ذرائع پر غور کیا جائے، جو کفایت شعار بھی ہوں، فائدہ مند بھی ہوں اور کیمیکلز سے پاک بھی۔

لیکن پاکستان میں کسانوں نے کھاد اور پانی کی قلت کا ایک دوسرا حل تلاش کیا ہے، کراچی سمیت ملک کے کئی علاقوں میں گٹر کے پانی سے فصلیں اگائی جارہی ہیں، جس پر اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ یہ صحت کیلئے مضر ہیں۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا انسانی فضلے سے اگائی گئی سبزیاں واقعی مضر صحت ہیں؟

چونکہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ یورپ اور پوری دنیا میں کسان کھاد کی قیمتوں میں اضافے سے دوچار ہیں، تو محققین نے تجویز کیا ہے کہ انسانی فضلے سے سبزیاں اگائی جائیں۔

یورپ کے سائنس دانوں پیر کے روز فرنٹیئرز ان انوائرنمنٹل سائنس کے جریدے میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں بتایا کہ انسانی فضلے اور پیشاب سے بنی کھاد استعمال کے لیے محفوظ ہے، اور اس میں کیمیکلز کی انتہائی قلیل مقدار شامل ہوتی ہے۔

روس کے یوکرین پر حملے کے بعد دنیا بھر میں حکومتیں کھاد کی لاگت کو قابل انتظام رکھنے اور خود کفیل ہونے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔

محققین نے حفاظت کے حوالے سے 310 کیمیکلز کے لیے انسانی فضلے کی اسکریننگ کی، جس میں ادویات سے لے کر کیڑوں کو بھگانے والے مادے شامل تھے۔

اسکریننگ سے پتہ چلا کہ ان میں سے صرف 6.5 فیصد شناخت ہونے کی حد سے زیادہ تھے۔

مصنفین نے نتیجہ اخذ کیا کہ ”عمومی طور پر، فیکل کمپوسٹ (انسانی فضلے کی کھاد) کے استعمال سے خوراک کے نظام میں داخل ہونے والے ادویات کے مرکبات سے انسانی صحت کو لاحق خطرہ کم دکھائی دیتا ہے۔“

جب انہوں نے گوبھی کے خوردنی حصوں میں دو درد کم کرنے والی آئبوپروفین اور اینٹی کنولسینٹ دوائی کاربامازپائن کا پتا لگایا تو ان کی تعداد واضح طور پر کم تھی۔

محققین نے کہا کہ اس کا مطلب ہے گوبھی کے نصف ملین سے زیادہ سروں کو ایک کاربامازپائن گولی کے برابر خوراک جمع کرنے کے لیے کھانے کی ضرورت ہوگی۔

کھاد کی قیمتوں میں اضافے سے کچھ کسان پہلے ہی جانوروں کے گوبر اور یہاں تک کہ انسانی فضلے کے گندے پانی کی طرف متوجہ ہوچکے ہیں۔ تاکہ فصل کے مصنوعی غذائی اجزاء کو تبدیل کیا جا سکے، لیکن یہ متبادلات اتنے مؤثر ثابت نہیں ہوئے۔

تاہم، یہ مطالعہ تجویز کرتا ہے کہ انسانی فضلے سے پروسس کی جانے والی کچھ مصنوعات، مصنوعی متبادل کی کارکردگی کے قریب آ سکتی ہیں۔

مقالے کے لیڈ مصنف آرین کراؤس نے مقالے میں کہا کہ ”اگر صحیح طریقے سے تیار کیا جائے اور کوالٹی کنٹرول کی جائے تو جرمنی میں 25 فیصد تک روایتی مصنوعی معدنی کھادوں کو انسانی فضلے سے ری سائیکلنگ کھاد کے ذریعے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔“

اب یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مقالے میں انسانی فضلے سے بنی جس کھاد کا ذکر کیا گیا ہے وہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے پروسسڈ کی گئی ہے، جبکہ پاکستان میں استعمال ہونے والا گٹروں کا پانی کسی طرح پروسسڈ نہیں، اس میں فیکٹریوں کے کیمیکلز اور کئی اقسام کا گند شامل ہوتا ہے۔

vegetables

Crops

human waste

Fertilizers