Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

ہم سب اس ملک کے اسٹیک ہولڈرز

اس ملک میں رہتے ہوئے ہم کس طرح اپنا خیال رکھ سکتے ہیں۔
شائع 04 جنوری 2023 05:09pm
تصویر بزریعہ اے ایف پی
تصویر بزریعہ اے ایف پی

کل کتابیں دیکھتے ہوئے ایک کتاب سے 2018 کی ایک رسید ملی، رسید اشیاء خرد و نوش کا بل تھا جس کو دیکھ کر یہ مصرع یاد آ گیا کہ ”یادِ ماضی عذاب ہے یا رب“۔

مہنگائی نے سب کی کمر توڑ دی ہے۔ مڈل کلاس بھی کبھی ہوا کرتی تھی مگر اب تو سفید پوشی کا بھرم اللہ قائم رکھے، ہر بندہ یہ ہی دعا مانگتا نظر آتا ہے۔

سنا ہے جب پریشانیاں زیادہ ہو جائیں تو ڈھارس کے الفاظ بھی بے معنی ہو جایا کرتے ہیں۔ موجودہ حالات اتنے غیر یقینی کے ہیں کہ حکومتی اعلانات پر اعتبار نا ممکن ہے۔

”ڈیفالٹ“ کی اصطلاح زبانِ زدِعام ہے، معاشی اشاریے پریشان کن اور حکومتی رویہ حیران کن ہیں۔ کس کا کیا فرض ہے اور کس کا کیا حق ہے کسی کو نہیں پتا، گلہ کس سے کریں ہر ادارہ ایک دوسرے کو قصوروار ٹھراتا ہے۔ غلطیوں کا تعین کرنے سے زیادہ ہر کسی کو دوسرے ذمہ دارٹھرانے کی زیادہ کوشش اور فکر ہے۔ ملک کی سمت کا پتہ اس کی حکومتی پالیسیوں کے تسلسل سے سمجھ آجانا چاہیے، مگر کیا کریں کہ ہر آنے والی حکومت پچھلی سرکار کا ناقابل حد تک معاشی بگاڑ کا رونا روتے اپنا دور گزار دیتے ہیں، بلکہ ناکامیوں کی نشان دہی کرنے والوں کا حشر نشر کرنے کی فکر میں زیادہ نظر آتے ہیں۔

نومبر 1939ء میں قائدِ اعظم جلسے سے خطاب کررہے تھے کہ آپ نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، ”نوجوان پوچھتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کی خدمت کس طرح کرسکتے ہیں۔ میرے پیارے نو جوانوں ! ہمارا عمل ہادیِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص اپنی اصلاح کرلے تو یہ بھی ملک کی خدمت ہوگی۔“

تالی دونوں ہاتھوں سی بجتی ہے۔ بے شک ”نظام“ حکومت چلاتی ہے مگر نظام کے اندر کی اکائیاں اگر یکسو نہ ہوں تو نظام بگاڑ بن جاتا ہے۔ نظام میں بنیادی اکائی عوام ہے۔

اچھا ہم عوام بھی بڑے بھلکڑ ہیں آزمائے ہوؤں کی غلطیوں کو بھول کر پھر ان کی باتوں میں آ کردوبارہ بھروسہ کر لیتے ہیں، اور زندگی کے اگلے دو چار سال پھرروتے روتے گزارنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔

در پیش سنگین معاشی صورتِ حال کے تناظر میں اب ہمیں بھی اپنی عادتیں تبدیل کرنا ہوں گی، گھر ہو یا ملکی معیشت اخراجات پر کنٹرول رکھنا بے حد ضروری ہے۔ ملک گیر کفایت شعار پالیسی کی تشکیل ہی ہمارے مسائل کا واحد حل ہے۔

ہوسکتا ہے آپ کو معلوم نہ ہو مگر پاکستان میں بجلی کے “ پیک آور“ گھنٹے بھی ہوتے ہیں یعنی ”پیک“ وہ گھنٹے جب بجلی کا ریٹ زیادہ ہوتا ہے۔ اے سی کے تھرمو اسٹیٹ میں (20 سے اوپر کسی لیول پر) چند ڈگری کی تبدیلی آپ کے بجلی کے بل میں نمایاں کمی لاسکتے ہیں اسی طرح اپنی گاڑی کے ٹائروں میں ہوا کی مناسب مقدار کو رکھنا پٹرول یا گیس مائلیج کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔

ہمیں اپنے اوقات بدلنے ہوں گے۔ صبح جلدی کاروبار کا آغاز اور شام کو جلد چھٹی ہمارے معاشی اور گھریلو مسائل کی راہ نجات ہے۔ اپنی تقریبات رات کے بجائے دن کی روشنی میں کرنے کا اہتمام کریں۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی کہا کہ حکومتی اداروں میں 20 فیصد لوگ گھر سے کام کریں تو 56 ارب روپے کی بچت ہوگی، جبکہ دیگر اقدامات کے ذریعے 6 کروڑ 20 لاکھ روپے کی بچت ہوگی۔

جس طرح قطرہ قطرہ مل کر سمندر بنتا ہے اسی طرح ہمیں مل کر ایک قوم بنانی ہے اور اس میں ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہے گزارش یہ ہی ہے کہ برائے مہربانی اپنے اہل و عیال کو بھی اسی کی تعلیم اور تلقین کیجیے۔ اپنا معمول بنانے اور ان کی تربیت کو مسلسل جاری رکھنے سے اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہے کیونکہ ہم سب اس ملک کے اسٹیک ہولڈرز ہیں۔

ذرا سوچئے !

پاکستان

Stake Holders