سال بدل گیا، چال کب بدلے گی؟
سال تو بدل گیا، مگر چال وہی۔ یعنی بے ڈھنگی۔ وہی پرانے نعرے، پرانے جملے۔ پرانے دعوے، پرانے شکوے اور پرانی شکایتیں۔۔۔ اپوزیشن کے الزامات۔۔۔ اور حکومت کے جھوٹے خواب اور سراب، اور سرابوں کے پیچھے بھاگتے عوام۔ اور آخر میں ان کی فریادیں اور دُہائیاں۔
اپنی شعوری زندگی میں کتنی ہی حکومتیں دیکھیں۔ ایک مارشل لا بھی بھگتا۔ کئی سالوں تک یہ بھی سنتے رہے کہ اس ملک کی تباہی کی اصل ذمہ دار تو پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں نہ ہوتیں تو ملک آج ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں ہوتا۔ پھر کہا گیا کہ دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو نیا تجربہ کرنا ضروری ہے۔ سو اس نئے تجربے کے لیے بھی ملک کو تجربے سے گزارا گیا۔ اور وہ تھا ”بانی نیا پاکستان“۔۔۔ عمران خان کا تجربہ۔
ہم نے عمران خان کا سو دن کا پلان دیکھا۔ اشتہارات شائع ہوئے کہ ہم مصروف تھے۔ ہم سمجھے کہ مصروفیت سے فارغ ہوں گے تو کچھ ڈیلیور ہوگا، مگر مصروفیت ایسی رہی کہ پونے چار سال بعد سر اُٹھاکر دیکھا تو پتا چلا کہ ”مصروفیت“ ہی ”مصروفیت“ میں ملک کہاں سے کہاں پہنچادیا ہے۔پھر تجربہ کرنے والوں کو خیال آیا کہ تجربہ مہنگا پڑا ہے، سو پرانوں کی طرف پھر رجوع کیاگیا۔
اور پھر اتحادی حکومت آگئی۔ ان کا بھی دعویٰ تھا کہ ہم تجربہ کار ہیں۔ سب کچھ بدل کر دکھادیں گے۔ حکومت میں آنے اور ملک چلانے کے پلان بتائے گئے۔ مگر آخر میں ہوا کیا؟ وہی جو اس وقت ہم اور آپ بھگت رہے ہیں۔
یہ ہماری سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے کہ جب اپوزیشن میں ہوں تو حکومت کے خلاف ایسی بھرپور مہم شروع کرتی ہیں کہ لگتا ہے تمام تباہی کی ذمہ دار یہی ہے، اور خود حکومت میں آتے ہی سب ٹھیک کردیں گے۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی جائیں گی، لیکن جیسے ہی حکومت میں موجود سیاسی جماعت کو ”گیم سے آؤٹ“ کرکے ان کی جگہ لیتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ پہلوں نے ملک کا ایسا حال کردیا ہے کہ ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا اور عوام پر مہنگائی کا عذاب نازل کر دیا جاتا ہے۔ اقتدار کی اس رسہ کشی کا بوجھ عوام کے کاندھو ں پر آ جاتا ہے۔
موجودہ حکومت نے بھی عمران خان کے خلاف ”مہنگائی مارچ“ شروع کیا، لیکن خود حکومت میں آتے ہی مہنگائی کی شرح تاریخی کردی۔ عمران خان کو کیا چاہیے تھا؟ شاید یہی جو اتحادیوں نے انہیں فراہم کردیا۔ سو عمران خان نے اپنی روایت کے عین مطابق بہت ہی کامیابی سے اپنی ناکامی کارُخ پی ڈی ایم کی طرف موڑ دیا۔ خان صاحب کسی چیز کا تہیہ کرلیں اور کامیاب نہ ہوں، یہ خاصا مشکل ہوتا ہے۔ خصوصاً ہیرو کو زیرو کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ یہاں تو جینوئن ایشوز تھے، جن کی وجہ سےخان صاحب نے چھکوں پر چھکے لگادیے۔
پی ڈی ایم نے نہ صرف عوام کی آرزوؤں کا خون کیا بلکہ حکومت میں آکر این آر او کا الزام بھی اپنے سر لے لیا۔ بہت سے مقدمات تھے جن میں کوئی جان نہیں تھی۔ محض سیاسی کیس تھے۔ لیکن الزام یہ لگا کہ پی ڈی ایم نے نیب قانون میں ترمیم کا سہارا لے کر اپنے مقدمات معاف کرائے۔اور حکومت اپنا بیانیہ عوام تک پہنچانے میں ناکام رہی۔
ہر حکومت کا سب سے بڑا چیلنج معاشی محاذ ہوتا ہے اورہر نئی حکومت جانے والی حکومت کے سریہی الزام لگاتی ہے کہ ان کی پالیسیاں درست نہیں تھیں اور خزانہ خالی کر کے گئے ہیں۔یہی حال پی ڈی ایم کا بھی ہوا۔ اپوزیشن میں رہتے بلند وبانگ دعوے کیے لیکن حکومت میں آتے ہی کہا کہ ہم نے عمران خان کی ناکامیوں کا ملبہ اپنے سر ڈال لیا ہے۔ اور دوسری طرف عمران خان کا الزام ہے کہ موجودہ حکومت نے معیشت تباہ کردی۔ کس نے ملک کو دیوالیہ کیااور کس نے بچایا اس سے قطع نظر پی ڈی ایم کو حکومت میں آئے بھی اب کافی وقت ہو گیا ہے لیکن غیر یقینی کی صورتحال ہے کہ ختم ہوکر نہیں دے رہی۔
حکومت میں موجود جماعت اپوزیشن میں جاتے ہی کہتی ہے کہ فیصلے ہم نے نہیں کیے، بلکہ ہم سے کروائے گئے تھے اور یہی عوام میں ان کی غیر مقبولیت کی وجہ بنتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا ”سیاسی“ الیکشن کمیشن کا ”جانبدار“اور عدلیہ کا ”تنازعات“سے بھرپور کردار۔۔۔۔سیاسی مفادات کے حصول کے لیے کیا کیا الزامات نہ لگائے گئے۔ ایک دوسرے کو غداری کے سرٹیفیکیٹ تک باٹنے جاتے ہیں۔ کبھی آڈیو لیکس تو کبھی ویڈیولیکس۔ عوام میں غیر مقبول ہونے کے ذمہ دار بھی سیاستدان خود ہیں۔ کون سے الزامات نہیں لگائے جاتے، سیاست کے لیے روز ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ لیکن سیاستدانوں کو شاید یہ سمجھنے میں دلچسپی نہیں ہے کہ جس درخت پر بیٹھے ہوں اسی کی جڑیں کاٹنے لگ جائیں تو پیچھے کیا بچے گا؟
ایک طرف ناکام معیشت اور دوسری طرف سر اٹھاتی دہشت گردی۔۔۔موجودہ صورتحال کاحل صرف ایک ہے ”سیاسی مذاکرات“۔ کیونکہ ملک بچانا ہو تو ٹھوس اقدامات کرنا ہی پڑتے ہیں۔ نئے سال میں سب سے بڑا چیلنج معیشت اور دہشت گردی ہے۔جس کے لیے ”میثاق معیشت“ اور“نیشنل ایکشن پلان“ پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ اوریہ سب کرنے کے لیے سیاسی استحکا م بہت ضروری ہے۔ خطے میں صورتِ حال کہاں سے کہاں جارہی ہے اور ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔
Comments are closed on this story.