2022 کا دسمبر سیکیورٹی فورسز کیلئے 10 سال میں سب سے زیادہ مہلک ثابت ہوا
سال 2022 آخری مہینہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کیلئے گزشتہ دہائی میں مہلک ترین ثابت ہوا، جس میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور داعش افغانستان پر مشتمل ایک نئی دہشت گرد تنظیم ملک کے لیے سب سے بڑے خطرے کے طور پر ابھری۔
سیکیورٹی فورسز نے 2022 کے دوران کم از کم 282 اہلکار کھوئے، جس میں 40 شہادتیں دسمبر میں ہوئیں اور یہ سال کا سب سے مہلک مہینہ ثابت ہوا۔ ان حملوں میں آئی ای ڈی، خودکش، اور سیکیورٹی چیک پوسٹس پر حملے شامل تھے جو زیادہ تر پاک افغان سرحدی علاقوں میں ہوئے۔
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (CRSS) کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس سال پاکستان کو 376 دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنا پڑا، کالعدم دہشت گرد تنظیمیں جیسے کہ تحریک طالبان پاکستان، داعش (اسلامک اسٹیٹ خراسان) اور بلوچستان لبریشن آرمی نے ان حملوں میں سے 57 کی ذمہ داری قبول کی۔
مجموعی طور پر خیبرپختونخوا میں دہشتگردی میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا، جس کی وجہ سے وہاں ہلاکتوں میں 108 فیصد اضافہ ہوا، خیبر پختونخوا میں دہشت گردی سے ہونے والی کل اموات 973 رہیں، جو 2021 کے مقابلے میں 14.47 فیصد زیادہ ہیں۔ دہشتگردی کا سب سے زیادہ شکار عام شہری، سرکاری اور سیکورٹی اہلکار بنے جو کُل ہلاکتوں کا 62 ہیں۔ جبکہ عسکریت پسند، باغی اور دیگر قانون کی خلاف ورزی کرنے والے افراد گزشتہ سال ہونے والی تمام ہلاکتوں میں سے 38 فیصد کے لیے ذمہ دار تھے۔
جاں بحق ہونے والے عام شہریوں (سویلینز) میں کچھ غیر ملکیوں کے علاوہ چار چینی اور افغان پولیس کے ایک سابق کمانڈر بھی شامل تھے۔
اٹھائیس نومبر کو ٹی ٹی پی کی جانب سے برسوں پرانی جنگ بندی ختم کئے جانے کے فوراً بعد، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کا ایک ایسا غیر معمولی سلسلہ شروع ہوا جیسا پہلے کبھی نہ دیکھا گیا۔
صرف دسمبر کے مہینے میں دو درجن سے زیادہ دہشتگردی کے حملے ہوئے۔ اس سے صوبے میں ہونے والی اموات کی تعداد (بشمول سابق فاٹا) ملک میں ہونے والی تمام اموات میں سے تقریباً 64 فیصد تک پہنچ گئیں، اس کے بعد بلوچستان میں دہشت گردی سے 26 فیصد اموات ہوئیں۔ 2022 کے دوران مجموعی طور پر ملک میں دہشتگردی اور جوابی کارروائی کے 513 واقعات ہوئے، جن میں 1714 افراد نشانہ بنے۔
بلوچستان میں بی ایل اے اور بی این اے (بلوچ نیشنلسٹ آرمی) جیسے باغی گروپوں نے کم از کم 14 بڑے حملوں کی قیادت کی، جن میں زیادہ تر سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں کے نتیجے میں 33 افراد ہلاک اور 23 زخمی ہوئے۔
پہلی بار بلوچستان سے باہر بی ایل اے کی ایک خاتون رکن نے اپریل میں کراچی یونیورسٹی میں خودکش حملہ کیا، جس میں تین چینی اساتذہ اور ایک پاکستانی ڈرائیور جاں بحق ہوا۔
بلوچ مزاحمت کاروں نے اپنی کارروائیوں کا دائرہ پنجاب تک پھیلایا، جہاں انہوں نے 21 جنوری 2022 کو مصروف انارکلی بازار پر حملہ کیا۔
2022 کے آخری حصے میں پراکسی دہشت گردانہ کارروائیوں کی واپسی کے ساتھ، جہاں تک 2022 میں پاکستان کے سیکورٹی چیلنجز کا تعلق ہے، خطرناک رجحانات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات کی ابتدا مشرقی افغانستان میں ہوئی، جہاں ٹی ٹی پی کے سرکردہ عسکریت پسند افغان طالبان کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
یہاں تک کہ افغان طالبان نے ڈیورنڈ لائن کے معاملے کو دوبارہ اٹھایا اور سوال اٹھانے کے ساتھ ساتھ سرحدی باڑ کو اکھاڑنا شروع کر دیا، جو 500 ملین ڈالر کی لاگت سے لگائی گئی تھی۔
سیکیورٹی فورسز خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گرد حملوں کا بنیادی ہدف بنی رہیں۔
ٹی ٹی پی، بی ایل اے، اور داعش افغانستان (آئی ایس کے) سب سے ظالمانہ اور وحشت ناک گروہ کے طور پر ابھرے جس کی وجہ سے ملک بھر میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔
خیبرپختونخوا میں ایک دہائی سے زائد عرصے میں دہشتگردی میں بے مثال اضافہ ہوا، جس میں انسانی نقصانات 108 فیصد زائد رہے۔
زیادہ تر دہشت گردانہ حملے گریٹر بنوں میں مرکوز ہیں جو وزیرستان، باجوڑ اور کرم اضلاع سے ملحق ہے۔ یہ اضلاع براہ راست افغان صوبوں کنڑ، ننگرہار، پکتیا، اور پکتیکا سے جڑے ہیں اور پاکستانی سرزمین میں دہشت گردی کے مشن کے لیے ایک سپرنگ بورڈ ہیں۔
2023 میں پاکستان میں مزید دہشتگردی کا امکان ہے۔ پچھلی دہائی کے پیٹرن سے پتہ چلتا ہے کہ سیکیورٹی فورسز بشمول فوج اور پولیس کے ساتھ ساتھ کے پی اور بلوچستان کے صوبے بھی دہشت گردی کی زد میں رہیں گے۔
نیز، یہ چیلنجز اس وقت تک برقرار رہیں گے جب تک کہ دہشت گرد تنظیمیں افغانستان میں محفوظ ہیں۔
Comments are closed on this story.