خیبرپختونخوا کی عدالت نے ریپ کے ملزم کو متاثرہ خاتون سے شادی کی شرط پر رہا کردیا
خیبر پختونخوا کے علاقے بونیر کی مقامی عدالت نے ریپ کرنے والے شخص کو متاثرہ لڑکی سے شادی کی شرط پر رہا کردیا۔
پاکستان کے شمال مغربی علاقے بونیر میں عمائدین کی ایک کونسل نے فریقین کے درمیان ثالثی میں متاثرہ لڑکی سے شادی کی شرط رکھی، جسے ملزم نے قبول کرلیا اور عدالت نے اسی شرط کی بنیاد پر ملزم کو رہا کردیا۔
تاہم، اس فیصلے نے انسانی حقوق کے کارکنان کو مشتعل کردیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ایسے ملک میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد کو جائز قرار دیتا ہے، جہاں عصمت دری کے زیادہ تر واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔
پچیس سالہ ملزم دولت خان کو مئی میں خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر کی ایک ذیلی عدالت نے بہری خاتون کے ریپ کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
تاہم، پشاور ہائی کورٹ نے متاثرہ خاتون کے خاندان کی جانب سے عدالت سے باہر تصفیے کو قبول کرنے کے بعد ملزم کو پیر کو جیل سے رہا کردیا گیا۔
ملزم دولت خان کے وکیل امجد علی نے اے ایف پی کو بتایا کہ “ریپ کرنے والا اور متاثرہ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ “ انہوں نے مزید کہا کہ ”مقامی جرگے کی مدد سے معاہدہ طے پانے کے بعد دونوں خاندانوں نے صلح کر لی ہے۔“
دولت خان کو رواں سال کے شروع میں غیر شادی شدہ متاثرہ کے بچے کی پیدائش کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، اور پیٹرنٹی ٹیسٹ سے ثابت ہوا کہ وہ بچے کا حیاتیاتی باپ ہے۔
پاکستان میں عصمت دری کے مقدمات کی پیروی کرنا انتہائی مشکل ہے، جہاں خواتین کو اکثر نچلے درجے کی شہری سمجھا جاتا ہے۔
کمزور خواتین کو قانونی مدد فراہم کرنے والے گروپ عاصمہ جہانگیر لیگل ایڈ سیل کے مطابق ایسے مقدمات میں سزا سنائے جانے کی شرح تین فیصد سے بھی کم ہے۔
سماجی بدنامی کی وجہ سے بہت کم کیسز رپورٹ کیے جاتے ہیں، جب کہ تفتیش کے دوران ہونے والی کوتاہی، ناقص استغاثہ کے طریقہ کار اور عدالت سے باہر تصفیے بھی سزا کی غیر معمولی شرح میں حصہ ڈالتے ہیں۔
ایک وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ایمان زینب مزاری حاضر کا پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بارے میں کہنا تھا کہ ”یہ ریپ، ریپ کرنے والوں کی سہولت کاری اور اس ذہنیت کیلئے عدالت کی مؤثر منظوری ہے۔“
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ”یہ انصاف کے بنیادی اصولوں اور ملک کے قانون کے خلاف ہے جو اس طرح کے انتظام کو تسلیم نہیں کرتا“۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کا بھی کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے سے ”حیرت زدہ“ ہے۔
گروپ نے ٹویٹ کیا، ”ریپ ایک ناقابلِ معافی جرم ہے جسے ایک کمزور ’سمجھوتہ‘ شادی کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔“
دیہی پاکستان میں، دیہات کی کونسلیں جنہیں جرگوں یا پنچایتوں کے نام سے جانا جاتا ہے، مقامی عمائدین پر مشتمل ہوتی ہیں جو نظام انصاف کو نظرانداز کرتے ہیں، حالانکہ ان کے فیصلوں کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہوتی۔
Comments are closed on this story.