سیاسی بساط پر مہرہ کون، اصل کھیل کس کا؟
دھند میں کھیلا جانے والا سیاست کا ایسا کھیل جس میں تاحدِ نگاہ کچھ نظر نہیں آتا، ہر منظر دھندلا ہوتا ہے اور سیاستدان شطرنج کے ان مہروں کی طرح کھیلتے ہیں جنہیں آخری وقت میں پتہ چلتا ہے کہ یہ صرف فریبِ نگاہ ہے اور جس کھیل میں وہ جان کی بازی لگا رہے ہیں اس کی بساط پر آخری چال ان کی مرضی کی نہیں ہوتی, بلکہ اصل بادشاہ تو کوئی اور ہے۔ اور پھر ارمانوں بھرے اس کھیل کا ”دی اینڈ“ ہوجاتا ہے اور الزامات در الزامات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
کون سے کھلاڑی کھیل کھیلیں گے اور کون سے نہیں اس کا فیصلہ تو ”بادشاہ“ کرتا ہے۔ اور اصل کھیل تو ان کا ہے جن کے ہاتھ میں یہ بازی ہے۔ اس کھیل میں من مانی کی گنجائش نہیں ہے اور جیت بھی انہی کی ہوتی ہے جن کے ہاتھ میں سب مہرے ہیں، اس بساط پر قدم جمائے رکھنا ہی کھلاڑیوں کا اصل امتحان ہے۔ قدم لڑکھڑایا نہیں اور کھلاڑی میدان سے باہر۔
پاور گیم کی اس بساط میں موجود ہر کھلاڑی کو لگتا ہے کہ سب سے اہم وہ ہے لیکن مہرے کو یہ نہیں پتا کہ کھیل سے اس کا کردار کب ختم ہوجائے۔
جس کھلاڑی کو لگتا ہے کہ وہ سب سے اہم ہے۔ کھیل کی آخری بازی میں اس کو پتہ چلتا ہے کہ وہ تو کھیل کا حصہ ہی نہیں رہا اور اس کی جگہ کسی اور کھلاڑی نے لے لی ہے، یہی حال عمران خان کا ہوا جب وہ یقین کی ان بلندیوں پر تھے کہ ان کا متبادل کوئی نہیں، تب ہی بازی ایسی پلٹی کہ دیکھنے والے بھی دنگ رہ گئے۔
تبدیلی کا نعرہ لگاتے عمران خان کی انٹری ہوئی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کھیل کا سب سے اہم سمجھے جانے والا کھلاڑی ہی کھیل سے باہر ہو جائے گا۔ ”ایک صفحے“ سے شروع ہونے والی تبدیلی کا صفحہ ایسا پھٹا کہ لاکھ کوششوں کے باوجود واپس نہیں جڑسکا۔ اور اب بھی میدان میں دوبارہ اترنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا۔ لیکن یہ ضدی مہرہ ہے کہ ابھی بھی کھیل سے باہر ہونے کو تیار نہیں۔
پردے میں لاکھ پھر بھی نمودار کون ہے
ہے جس کے دم سے گرمئی بازار کون ہے
وہ سامنے ہے پھر بھی دکھائی نہ دے سکے
میرے اور اس کے بیچ یہ دیوار کون ہے
بازی پلٹنے والوں نے میدان میں وہی پرانے کھلاڑی نئے انداز میں اس طریقے سے اتارے کہ بھرم بھی رہ جائے اور فتح بھی مقدر ہو جائے، کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ ریاست ہے تو سیاست ہے۔ لیکن عمران خان اپنے ہی محسنوں کے مد مقابل آگئے اور پاکستان تباہ کرنے کا ذمہ دار ان کو قرار دیا۔ پھر چاہے وہ احتساب کا معاملہ ہو، چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا معاملہ یا حکومت ہٹانے کا۔
عمران خان اپنی تمام تر ناکامیوں کی واحد وجہ جنرل (ر) باجوہ کو سمجھتے ہیں۔ اقتدار کے وہ مخلص ساتھی جن کی کامیابی اور ناکامی ایک دوسرے سے مشروط تھی، وقت نے آمنے سامنے لاکر کھڑا کردیا اور الزامات در الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ”ڈبل گیم“ کھیلنے جیسے الزامات لگے، جس نے مزید سوالات کو جنم دیا کہ کس نے کس کو دھوکا دیا؟ اصل کھیل کا کس کا تھا اور مہرہ کون بنا؟
عمران خان نے اپنا آخری پتّہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے دھمکی کے طور پر پھینکا، کیونکہ ان کے پاس بظاہر واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا جس پر چوہدری پرویز الٰہی نے ان کو تگنی کا ناچ نچوا دیا۔ اور اب ساری کشتیاں جلانے کے بعد عمران خان ایک بار پھر اسی در پر آگئے جس سے وہ نکالے گئے۔
ایک طرف کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے حکومت میں نہیں آنا چاہتے اور دوسری طرف انہی سے امیدیں وابستہ کرلیں۔ اس طرح ایک بار پھر وہ اس دھند میں لپٹے سیاسی نظام کا مہرہ بننے کے لیے تیار ہو گئے ہیں کیونکہ وہ بھی اس ”پاور گیم“ کا حصہ رہنا چاہتے ہیں جس پر وہ اپنی مرضی کی بساط بچھا سکیں۔
انہیں اپنی چالوں پر بھروسہ ہے اور مان ہے کہ انہیں ”نئے بادشاہ گروں“ کا ساتھ حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ٹیڑھی چال چل کر منزل پر نہیں پہنچا جا سکتا وہ امید کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔
Comments are closed on this story.