کیا فیض حمید عمران خان کیخلاف ’سازش‘ کا حصہ تھے؟ نیا دعویٰ
انٹرنیٹ پر وائرل ہونے والے ایک ٹوئٹر تھریڈ میں عمران خان کی حکومت کے خلاف مبینہ سازش کے حوالے سے ایک نیا دعویٰ سامنے آیا ہے جس کے مطابق اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید بھی مذکورہ ’سازش‘ میں شریک تھے۔ اس تھریڈ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ پی ٹی آئی نے امریکہ میں لابنگ کے لیے جس فرم کی خدمات حاصل کی تھیں اس نے میموگیٹ اسکینڈل کے اہم کردار حسین حقانی کو ادائیگی کی۔
پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری نے اس تھریڈ میں کیے گئے دعوؤں کو درست تسلیم کرتے ہوئے ان میں کچھ اضافے کیے ہیں۔ اگرچہ جنرل فیض حمید کے ذکر پر انہوں نے تبصرہ نہیں کیا۔
نیویارک میں مقیم پاکستانی صحافی وقاص احمد نے ایک طویل ٹوئٹر تھریڈ میں لکھا کہ تحریک انصاف دور میں امریکہ میں پاکستان کی لابنگ کرنے کے لیے مسٹر گرینئر کی فرم کی خدمات حاصل کی گئیں جو ماضی میں اسلام آباد میں سی آئی اے کے اسٹیشن چیف رہ چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنما افتخار درانی کے ذریعے یہ معاہدہ اس وقت ہوا جب عمران خان اور فوج ”سیم پیج“ پر تھے۔ اس وقت اس حوالے سے کوئی خبر شائع نہیں ہوئی۔ تقریباً ایک برس بعد اگست 2022 میں یہ معاملہ پاکستانی میڈیا میں اچھالا گیا اور یہ ظاہر کیا گیا کہ پی ٹی آئی نے یہ معاہدہ کیا ہے۔
امریکہ میں غیرملکیوں کے لیے کام کرنے والی فرمز کو اپنے معاہدے اور ادائیگیوں کی تمام تر تفصیلات کے کاغذات باقاعدگی سے امریکی حکومت کو جمع کرانے ہوتے ہیں۔ وقاص نے لکھا کہ پی ٹی آئی حکومت گرنے کے بعد گرنیئر نے جو کاغذات امریکی قوانین کے تحت جمع کرائے اس سے انکشاف ہوا کہ حسین حقانی کو بھی تحیقیق کے نام پر ہزاروں ڈالر کی ادائیگی ہوئی تھی۔
یاد رہے کہ حسین حقانی کو عمران خان اپنے خلاف امریکی سازش میں ملوث قرار دیتے رہے ہیں۔ وقاص کے بقول حسین حقانی کو ادائیگی سے پی ٹی آئی حکومت لاعلم تھی۔ جب کہ عمران خان کی لاعلمی میں شطرنج کی بساط پر مہروں کی حرکت 2021 کے موسم گرما میں شروع ہوچکی تھی۔
ٹوئٹر تھریڈ مین دعویٰ کیا گیا ستمبر اکتوبر 2021 میں جرنل باجوہ نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ متحدہ عرب امارات کا دعویٰ کیا جہاں حسین حقانی اماراتی حکام کی دعوت پر باجوہ و دیگر سے ملاقات کرنے آئے تھے۔ وقاص کے مطابق امارات میں حسین حقانی نے جنرل باجوہ، جنرل فیض اور دیگر افسران سے ملاقات کی۔ تھریڈ میں لکھا گیا کہ ”وہاں پر جتنے لوگ موجود تھے ان کو اس وقت کے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے مسئلہ تھا۔“
وقاص نے مزید لکھا کہ ”اس ملاقات میں کچھ انڈرسٹینڈنگ طے پاگئی۔ مسٹر حقانی جنرل فیض اور باجوہ سے رابطے میں رہنے والے تھے۔“
ٹوئٹر تھریڈ کے مطابق یہ بات تحریک عدم اعتماد تک مخفی رکھی گئی۔ گرنیئر کی فرم کی جانب سے حسین حقانی کو ادائیگی کا انکشاف بھی عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد ہوا۔
صحافی اس دعوے سے متعلق بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری نے کہا کہ ”حقانی باجوہ فائلز“ اب سامنے آچکی ہیں لیکن کچھ نکات ”مسنگ“ ہیں لہٰذا وہ رجیم چینج کی سازش سے متعلق ان نکات کا احاطہ کرنا چاہیں گی۔
شیرین مزاری نے دعویٰ کیا کہ جنرل باجوہ نے ایک اجلاس میں شکوہ کیا تھا کہ پاکستان بیرون ملک موجود پروفیسروں کو اپنے لیے حمایت حاصل کرنے کےلیے استعمال نہیں کر رہا اور جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے حسین حقانی کا نام لیا۔ اس بات سے سب کو دھچکہ لگا اور کسی نے حسین حقانی کے حوالے سے ان کے خیال کی تائید نہیں کی۔ شیریں نے کہاکہ ان کے خیال میں اس کے بعد جنرل باجوہ نے خفیہ طور پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور سویلین حکومت کو باہر کر دیا۔
شیریں مزاری نے یہ دعویٰ بھی کہا کہ افتخار درانی کو ان کے پرانے بیج میٹس کے ذریعے لایاگیا اور پی ٹی آئی کو پہلی بار اس وقت معلوم ہوا جب یہ کہانی منظر عام پر آئی۔
پی ٹی آئی رہنما نے دعویٰ کیا کہ واضح ہے کہ حسین حقانی کی خدمات پی ٹی آئی کو نقصان پہنچانے کےلیے حاصل کی گئیں۔
تاہم اپنے جواب میں شیرین مزاری نے جنرل فیض حمید کے حوالے سے وقاص کے تھریڈ میں موجود دعوؤں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے کارکن جنرل فیض حمید کے زبردست حامی رہے ہیں اور کچھ عرصہ قبل تک یہ تاثر بھی تھا کہ عمران خان جنرل فیض حمید کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے۔ پی ٹی آئی قائد نے اپنے انٹرویوز میں اس تاثر کی نفی کی تھی۔
Comments are closed on this story.