تقریباً ایک صدی پہلے جب 600 ملازمین سے بھری 7 منزلہ عمارت کو گھما دیا گیا
آج سے تقریباً 92 سال پہلے نومبر 1930 میں امریکی ریاست انڈیانا میں جدید انجینئرنگ کے عظیم کارناموں میں سے ایک کو انجام دیا گیا۔
معماروں اور انجینئروں کی ایک ٹیم نے 11 ہزار ٹن (22 ملین پاؤنڈ) کے ٹیلی فون ایکسچینج کی عمارت کو کسی کام یا بنیادی سہولتوں کو معطل کیے بغیر ایک سے دوسرے مقام پر منتقل کیا اور اس دوران کمپنی کے 600 ملازمین اندر کام کرتے رہے۔
اس عظیم کارنامے کی قابلِ عمل ہونے کے بارے میں سمجھنے کیلئے ہمیں 1888 میں جانا پڑے گا، جب جرمن نژاد امریکی آرکیٹیکٹس برنارڈ وونیگٹ اور آرتھر بوہن نے انڈیانا پولس میں ایک آرکیٹیکچر فرم ”وونیگٹ، بوہن اینڈ مویلر“ جسے بعد میں وونیگٹ اینڈ بوہن کے نام سے جانا جاتا تھا، قائم کی تھی۔
1907 میں وونیگٹ، بوہن اینڈ مویلر نے ایوانس وِل میں انڈیانا بیل بلڈنگ کو ڈیزائن کیا، جو سنٹرل یونین ٹیلی فون کمپنی کی سات منزلہ عمارت تھی۔
اس آرٹ - ڈیکو عمارت کو بعد میں 1982 میں امریکا کے تاریخی مقامات کے قومی رجسٹر میں شامل کیا گیا تھا، کیونکہ یہ انڈیاناپولس کی جرمن - امریکی تعمیراتی میراث کا حصہ ہونے کی وجہ سے تاریخی شناخت کا حصہ تھی۔
1929 میں انڈیانا بیل ٹیلی فون کمپنی نے سنٹرل یونین کی اس عمارت کو خریدا، اس میں وہ دفاتر بھی شامل تھے جنہیں 20 سال پہلے جرمن نژاد معماروں نے ڈیزائن کیا تھا۔
چونکہ انڈیانا بیل کے پاس ملازمین کی ایک بڑی تعداد تھی تو ابتدائی منصوبہ پیش کیا گیا کہ اسی علاقے میں زیادہ صلاحیت کا ہیڈ کوارٹر بنانے کے لیے عمارت کو گرایا جائے۔ اس منصوبے کے لیے انہوں نے وونیگٹ، بوہن اور مویلر کو ٹاسک دیا۔
اس عمارت میں صرف دفاتر ہی نہیں بلکہ ایک کال سینٹر بھی قائم تھا جو اس وقت کمپنی کا اپنا عملہ مینوئلی چلاتا تھا اور عمارت کے انہدام کا مطلب شہر بھر میں ٹیلی فون سروس کی فراہمی کا معطل ہوجانا تھا۔
کرٹ وونیگٹ پہلے سے ہی اپنے والد کے ساتھ فرم میں کام کر رہے تھے، جب فون کمپنی نے اس پروجیکٹ کو پیش کیا جس میں عمارت کو گرانا بھی شامل تھا، کرٹ نے ایک جدید متبادل تجویز کیا کہ کیوں نہ عمارت کو ہی دوسری جگہ منتقل کردیا جائے تاکہ کال سروسز کے تسلسل کو برقرار رکھا جاسکے، اور اس طرح مکمل طور پر فعال انفراسٹرکچر ضائع نہ ہو۔
کرٹ کی تجویز کو کمپنی نے منظور کر لیا اور 34 دنوں تک 11 ہزار ٹن کی عمارت کو اس کے اصل مقام سے 16 میٹر کے فاصلے پر منتقل کیا گیا اور اسے 90 ڈگری گھمایا گیا، یہ عمل نومبر 1930 کے وسط میں مکمل ہوا وہ بھی بغیر کسی رکاوٹ کے، نہ ہی کالز کی سروس اور نہ ہی عمارت کی گیس، پانی اور بجلی کی فراہمی میں خلل پیدا ہوا۔
اس انتہائی پیچیدہ اقدام کی منصوبہ بندی انجینئرز بیونگٹن، ٹیگارٹ اور فولر نے کی تھی، جبکہ ٹھیکیدار جان ایچلی کمپنی نے اس وقت یہ مشکل کارنامہ انجام دیا۔
انہوں نے یہ کیسے کیا؟
سات منزلہ اور 11 ہزار ٹن وزنی عمارت کو سب سے پہلے ہائیڈرولک جیک کے ذریعے اٹھایا گیا۔ اس کے بعد اسے کنکریٹ سلیبپر نصب ہائیڈرولک رولرز کے زریعے 75 ٹن وزنی اسپروس بیم پر کھسکایا گیا، جو خاص طور پر اس مقصد کے لیے بنائی گئی تھی۔
جب عمارت ایک رولر پر ٹکی ہوئی ہوتی تو مزدور اس سے آگے اگلی جگہ پر رولر سیٹ کرتے اعور یہ سلسلہ چلتا رہتا۔
اس طرح عمارت کو 40 سینٹی میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت دی گئی۔ یہاں تک کہ عمارت کے داخلی ہال کو بھی ایک متحرک داخلی راستے سے منسلک کیا گیا تھا جو گردشی نقل و حرکت کی اجازت دیتا تھا اور اسے ہر وقت قابلِ رسائی بناتا تھا۔
ٹیلی فون کلیکٹرز انٹرنیشنل (TCI) کے ریکارڈ کے مطابق عمارت کے 600 ملازمین میں سے کچھ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ڈھانچے کی نقل مکانی کو کبھی محسوس ہی نہیں کیا۔
اس دیوہیکل نقل مکانی کے باوجود میریڈیئن اور نیویارک سینٹ کے چوراہے پر واقع یہ عمارت صرف 1950 کی دہائی کے آخر تک کام کرتی رہی اور کمپنی آپریٹرز کی بڑھتی ہوئی تعداد کو جگہ فراہم کرنے کے لیے اسے 1963 میں منہدم کر دیا گیا، اور اس کی جگہ نئی آفس فیسیلٹی نے لے لی۔
آج اس سائٹ پر AT&T کے دفاتر ہیں جو کہ ایک 22 منزلہ کمپلیکس ہے۔
انڈیانا بیل بلڈنگ دنیا کی پہلی عمارتوں میں سے ایک تھی جو منہدم ہونے کے بجائے کہیں اور منتقل کی گئی تھی۔
اس کی دوسری مثالیں منیاپولس میں شوبرٹ تھیٹر، سسیکس انگلینڈ میں بیلے ٹاؤٹ لائٹ ہاؤس اور نیویارک میں ایمپائر تھیٹر ہیں۔
Comments are closed on this story.