Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ - عمران خان کی نئی چال یا فیس سیونگ ؟

جو کھیل وہ دوسروں کے ساتھ کھیلتے رہے اب خود اسکا شکار ہونے جا رہے ہیں؟
شائع 19 دسمبر 2022 03:06pm
عمران خان کو خطرہ تھا کہ اگر وہ جارحانہ قدم نہیں اٹھائیں گے تو عوام میں غیر مقبول ہو جائیں گے. - تصویر/ عمران خان فیس بُک آفیشل
عمران خان کو خطرہ تھا کہ اگر وہ جارحانہ قدم نہیں اٹھائیں گے تو عوام میں غیر مقبول ہو جائیں گے. - تصویر/ عمران خان فیس بُک آفیشل

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔۔۔ بالآخرعمران خان نے ایک طویل انتظار کے بعد اسمبلیاں توڑنے کی تاریخ کا اعلان کر ہی دیا۔۔۔ مگر اب بھی تاریخ کا ہی اعلان ہوا !

تو کیا یہ اعلان محض اعلان ہی ہے؟ کیا عمران خان خود بھی اسمبلیاں توڑنا چاہتے ہیں یا یہ محض ایک نئی سیاسی چال ہے؟ کیا اس چال سے متوقع نتائج حاصل کر پائیں گے اور اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکیں گے جس کے لیے انہیں یہ سارے پاپڑ بیلنا پڑرہے ہیں۔

ابھی تک عمران خان کی تمام سیاسی چالیں انہی پر الٹی پڑ رہی ہیں۔ جیسے مقتدر حلقوں پر تنقید کے بعد جو ہوا عمران خان کی لاکھ کوششوں کے باجود کچھ ٹھیک نہیں ہوسکا۔۔ جو کھیل وہ دوسروں کے ساتھ کھیلتے رہے اب وہ خود اس کا شکار ہونے جا رہے ہیں؟ چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے صاحبزادے مونس الٰہی اس وقت ان کے ساتھ ”کھیل“ رہے ہیں جو دوسروں کے ساتھ کھیلنے کا دعویٰ کرتے تھے۔

یقینا عمران خان کے لیے اسمبلیاں تحلیل کرنا بہت آسان نہیں ہوگا کیونکہ بہرحال اس سے ان کا سیاسی نقصان ہے اور سب داﺅ پر لگ جائے گا، لیکن اس سے بھی مشکل اب ان کے لیے ”یو ٹرن“ لینا ہوگا۔۔۔ اسی لیے انہوں نے ایک ہفتہ آگے کی تاریخ دے کر حکومت سے اپنی ”فیس سیونگ“ کی درخواست کی ہے تاکہ حکومت تحریک عدم اعتماد لا کر ان کا کام آسان کر دے اور ان کا بھرم رہ جائے۔۔۔لیکن پی ڈی ایم بھی جلدی میں نظر نہیں آتی۔ وہ بھی ”دیکھو اور انتظار کرو“کی پالیسی پر عمل پیراہے۔ لیکن وفاقی حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی کہ انتخابات میں جتنی تاخیر ممکن ہو اتنی کی جائے۔

عمران خان کو خطرہ تھا کہ اگر وہ جارحانہ قدم نہیں اٹھائیں گے تو عوام میں غیر مقبول ہو جائیں گے۔ اس لیے ان کو اعلان کرنا ہی تھا لیکن ان کے اتحادی جلدی نہ کرنے کا مشورہ دے رہے تھے اورکچھ مزاحمت کررہے تھے۔۔۔ جن میں چوہدری پرویز الٰہی سرِ فہرست ہیں جو بظاہر تو عمران خان کا ساتھ دینے کی باتیں کرتے ہیں لیکن اگلے ہی لمحے کوئی ایسا بیان دے دیتے ہیں جس سے حال دل عیاں ہوجاتا ہے۔۔۔ عمران خان جیسے ذہین سیاست دان بھی سوچتے تو ہوں گے کہ کس سے پالا پڑگیا ہے !

چوہدری برادران کی سیاست پر سارے سیاستدان حیران اور پریشان ہیں کہ وہ کرنے کیا جا رہے ہیں۔ ایک طرف تو عمران خان کے ساتھ اسمبلیاں تحلیل کرنے کااعلان کرنے بیٹھے، لیکن اگلے ہی دن اپنے بیانات سے معاملات پھر مشکوک کر دیے اور اسٹیبلشمنٹ کے پیغامات بھی عمران خان کو پہنچا رہے ہیں کہ اسمبلیاں مدت پوری کریں ورنہ اکنامک ایمرجنسی کا آپشن بھی موجود ہے لیکن ان کا اس طرح کا کردار کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سیاست کے آغاز سے ہی وہ ایسا کرتے آئے ہیں اور ابھی بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

کیونکہ فائدہ بھی اسی میں ہے۔ چوہدری برادران ہواﺅں کا رخ دیکھ کر فیصلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ پہلے انہوں نے پی ڈی ایم کے ساتھ وعدے وعید کر کے پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور اب آصف زراری،شہباز شریف اور مقتدر حلقوں سے ملاقاتیں اس بات کا ثبوت ہیں۔ اور اسٹیبلشمنٹ کی لائن لے کر چلنے اور اس پر کسی قسم کی شرمندگی نہ ہونے کا وہ برملا اعلان بھی کرتے ہیں۔

عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ سے بیک ڈور اور فرنٹ ڈوررابطے بھی جاری ہیں، جن میں تا حال کامیابی کے امکانات نظر نہیں آ رہے۔۔۔ پرانی اسٹیبلشمنٹ پر وار اورنئی کی خوشامد بھی جاری ہے اور وہ نئی قیادت کی طرف سے کسی اشارے کے منتظر ہیں لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جا کرآج تک کسی جماعت کو کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہیں ہواتو عمران خان اس سے کیسے فیض یاب ہوسکتے ہیں؟۔

اگر اسمبلیوں سے نکل کربھی جلد انتخابات کا مقصد پورا نہ ہوا تو عمران خان کو نقصان ہوسکتا ہے۔ دو حکومتیں انہیں سہولت فراہم کرتی رہی ہیں۔ لانگ مارچ میں جس طرح پنجاب حکومت نے سہولت کاری کی، وہ مخالف حکومت کے ہوتے ہوئے ناممکن تھی۔ یہی بات مونس الٰہی نے بھی عمران خان کے گوش گزار کی کہ ہم اسمبلیوں سے نکل گئے تو بہت مار پڑے گی۔

دیکھتے ہیں عمران خان اسمبلیوں سے نکلتے بھی ہیں یا نہیں۔۔۔ اگر نکلتے ہیں تو مونس الٰہی کی پیشین گوئی کس حد تک درست ثابت ہوتی ہے۔۔۔ اور اگر درست ثابت ہوتی ہے تو عمران خان کے پاس واپسی کا راستہ کیا ہوگا۔۔۔؟

imran khan

punjab

Punjab Assembly dissolve

Pakistan Tehreek Insaf