Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

’بھارت چینی فوجیوں کے ساتھ ہونے والی سرحدی جھڑپوں کی شدت چھپا رہا ہے‘

ہر ماہ بھارتی اور چینی افواج کے درمیان جھڑپوں کے کئی واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
شائع 14 دسمبر 2022 11:15pm
’بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان سرحدی جھڑپوں کو پوشیدہ رکھا جا رہا ہے‘ (تصویر اے ایف پی)
’بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان سرحدی جھڑپوں کو پوشیدہ رکھا جا رہا ہے‘ (تصویر اے ایف پی)

برطانوی خبر رساں ادارے نے بھارتی فوج کے سینئر ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت، چین کے ساتھ ہونے والی سرحدی جھڑپوں کی اصل شدت چھپا رہا ہے تاکہ عوام میں خوف پیدا نہ ہو۔

ذرائع نے ٹیلی گراف کو بتایا کہ شمالی ریاست اروناچل پردیش میں ہر ماہ بھارتی اور چینی افواج کے درمیان جھڑپوں کے کئی واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کے فوجی بعض اوقات پرتشدد ہاتھا پائی میں ملوث ہوتے ہیں، اور اکثر ڈنڈوں اور دیگر دیسی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہیں۔

چین نے 1962 میں بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگ کے دوران اروناچل پردیش پر قبضہ کر لیا تھا اور اسے امن معاہدے کے تحت واپس بھی کر دیا تھا، لیکن بیجنگ تب سے اس علاقے پر اپنا دعویٰ برقرار رکھے ہوئے ہے۔

حالیہ برسوں میں، دہلی نے چین پر سرحدی جارحیت بڑھانے اور اسٹریٹجک لحاظ سے اہم علاقے پر بتدریج قبضہ کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا ہے۔

اروناچل پردیش کے توانگ ضلع میں 9 دسمبر کو ہونے والی جھڑپ، جس میں کم از کم 20 بھارتی فوجی زخمی ہوئے، کو وسیع پیمانے پر رپورٹ کیا گیا۔ لیکن بھارتی فوج کے ذرائع نے کہا کہ ایسے واقعات معمول کی بات ہیں۔

بھارتی فوج کے ایک سینئر افسر نے کہا، ”اروناچل پردیش میں سرحد کے ساتھ ساتھ پیپلز لبریشن آرمی (PLA) کے ساتھ دو بدو ہونا ایک معمول کی بات بن گئی ہے، خاص طور پر یانگتسے کے علاقے میں۔“ افسر نے بتایا، ”ایسے واقعات حال ہی میں مہینے میں اوسطاً دو یا تین بار ہوئے ہیں، اور پچھلے دو سالوں میں دراندازیوں میں اضافہ ہوا ہے۔“

مذکورہ افسر نے کہا کہ جب ان کا چینی فوجیوں سے سامنا ہوا تو بھارتی فوج نے پروٹوکول کی پیروی کی، مینڈرن زبان میں پیغامات کے ساتھ بینرز لگائے جس میں ان پر زور دیا گیا کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں، لیکن اکثر ان درخواستوں کو نظر انداز کیا جاتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ”کبھی کبھی یہ معاملات پرامن طریقے سے حل ہوتے ہیں اور کبھی وہ مزاحمت کرتے ہیں، جس سے جھڑپیں ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ہمیں انہیں پیچھے دھکیلنے کے لیے پتھر اور سلاخوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔“

بھارت کی سرحدی افواج کو بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان باقاعدگی سے ہونے والی جھڑپوں کے بارے میں خاموش رہنے کی سخت ہدایات ہیں۔

مذکورہ افسر نے بتایا کہ ”ہمیں اوپر سے ہدایات ملتی ہیں کہ ان واقعات پر بات نہ کی جائے اور اس کی وجہ سیاسی معلوم ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) چین کے ساتھ مسئلے کو کم کرنا چاہتی ہے۔“

بھارت کے اگلے عام انتخابات 2024 میں ہونے والے ہیں۔ جس میں وزیر اعظم نریندر مودی کی بھاری اکثریت سے کامیابی کی توقع ہے، لیکن ان کی مقبولیت کا زیادہ تر انحصار ان کی شبیہہ پر ہے کہ وہ ایک مضبوط آدمی کے طور پر خود کو پیش کریں جو چین اور پاکستان کے خلاف بھارت کا دفاع کرسکتے ہیں۔

بھارتی فوج کی شمالی کمان کے سابق جنرل آفیسر کمانڈنگ اِن چیف جنرل دیپندر سنگھ ہوڈا نے ٹیلی گراف کو بتایا کہ، ”بعض اوقات معلومات کو روکنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ معلومات کو ریلیز کرنے میں جلدی بعد میں ہونے والے مذاکرات کو پیچیدہ بنا دیتی ہے۔“

بیجنگ اور دہلی 2,100 میل لمبی سرحد کا اشتراک کرتے ہیں جسے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC) کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ سرحد ٹھیک طرح سے نشان زد نہیں ہے اور دونوں طرف سے فوجی یا عام شہری آسانی سے اس پار بھٹک جاتے ہیں۔

2021 میں، چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے کہا تھا کہ اروناچل پردیش ”قدیم زمانے سے“ چین کا حصہ رہا ہے اور دعویٰ کیا کہ یہ علاقہ جنوبی تبت کا حصہ ہے۔

اروناچل پردیش پر چینی کنٹرول بیجنگ کو بھوٹان کو گھیرنے اور بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں کو الگ تھلگ کرنے کی اجازت دے گا۔

جون 2020 میں پی ایل اے کے فوجیوں نے مرکز کے زیر انتظام علاقے لداخ میں 20 مربع میل سے زیادہ بھارتی اراضی پر قبضہ کر لیا تھا، جو کہ مغربی بھارت میں واقع ہے اور چین کی سرحد سے متصل ہے، اس دوران ہاتھوں، پتھروں اور ڈنڈوں سے کی جانے والی مسلح وحشیانہ لڑائی میں کم از کم 20 بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔

بیجنگ مبینہ طور پر مسلسل خانہ بدوش چینی چرواہوں کو اروناچل پردیش میں بھیج رہا ہے، جو نسل در نسل دونوں ملکوں کی سرحد کے پار پرامن طریقے سے نقل مکانی کر کے اپنے مویشی چرانے کی زمین تلاش کر رہے ہیں۔

لیکن، چرواہوں کو اب کہا جا رہا ہے کہ وہ بھارتی علاقے کے اندر آباد ہو جائیں اور اصطبل کی طرح مستقل ڈھانچے تعمیر کریں، جہاں وہ تحفظ کے بہانے پی ایل اے کے فوجیوں کے ساتھ مل جاتے ہیں، اس طرح سرحد کو آگے منتقل کر دیا جاتا ہے۔

ایک اور بھارتی افسر نے ٹیلی گراف کو بتایا کہ ”وہ ہماری زمین پر قبضہ کرنے کے لیے مختلف طریقے اپناتے ہیں۔ بعض اوقات وہ اپنے چرواہے ہمارے علاقے میں بھیج دیتے ہیں جو اپنے لیے عارضی پناہ گاہیں بناتے ہیں۔ اس کے بعد، پی ایل اے اس علاقے پر دعویٰ کرتا ہے۔“

”اس کے علاوہ، پی ایل اے رات کے وقت آتی ہے اور ہماری زمین پر پتھر رکھ جاتی ہے۔ دن کے وقت گشت کے دوران وہ پتھر جمع کرتے ہیں تاکہ انہیں دیوار کی شکل دے کر ہمارے علاقے پر اپنا دعویٰ کر سکیں۔“

نومبر 2021 میں، پینٹاگون نے اروناچل پردیش میں بھارتی علاقے کے اندر دو چینی تعمیر کردہ گاؤں کے وجود کی تصدیق کی تھی۔

Indian Army

Arunachal Pradesh

India China Clashes

PLA