باجوڑ اسپورٹس کمپلیکس میں سستی فلڈ لائٹس کے فاؤل نے کھیل اجاڑ دیئے
گزشتہ سال باجوڑ پریمئیر لیگ میں ٹیم باجوڑ اسٹار نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی اور سیمی فائنل میچ کیلئے کوالیفائی بھی کرلیا تھا، لیکن کم روشنی کی وجہ سے کھیل کو اگلے دن کرانے کی تجویز دی گئی، مگر بدقسمتی سے دوسرے دن سیمی فائنل میں ہار ٹیم کا مقدر ہوئی۔
باجوڑ کی معروف ”عاجز کرکٹ اکیڈمی“ کے بانی اور باجوڑ پریمئیر لیگ میں ٹیم ”باجوڑ اسٹار“ کی نمائندگی کرنے والے کرکٹر اظہارالحق عاجز بتاتے ہیں کہ ہماری ٹیم سہ پہر کے وقت شروع ہونے والے سیمی فائنل میں بہت اچھا کھیل رہی تھی لیکن مخالف ٹیم کے کھلاڑی نے کم روشنی کا بہانہ بنایا جس کی وجہ سے باقی میچ کو اگلے دن کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر فلڈ لائٹس ٹھیک ہوتیں تو ہم پہلے ہی دن میچ جیت جاتے کیونکہ ہم نے مخالف ٹیم کو قابو میں رکھا تھا۔
باجوڑ سپورٹس کمپلکس کے کرکٹ گراؤنڈ میں نصب فلڈ لائٹس میں کرکٹ تو دور کی بات، فٹ بال اور والی بال کا میچ بھی نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ایک تو لائٹس کے پول کے اونچائی بہت کم ہے اور دوسرا یہ کہ اس میں کمزور یعنی عام لائٹس نصب کی گئی ہیں۔
باجوڑ کرکٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر محمد اسماعیل نے باجوڑ سپورٹس کمپلکس کے کرکٹ گراؤنڈ میں لگائی گئی لائٹس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم روز اول سے یہ مانتے تھے اور ہمیں پتہ تھا کہ یہ کام ٹھیک نہیں ہورہا۔
وہ کہتے ہیں کہ کیونکہ کرکٹ گراؤنڈ میں فلڈ لائٹس لگانے کیلئے ٹیکنیکل لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس کام میں تجربہ رکھتے ہوں۔ محکمہ تعمیر (سی اینڈ ڈبلیو) میں ٹیکنیکل لوگ نہیں تھے۔
محمد اسماعیل نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں باجوڑ پریمئیر لیگ کا فائنل میچ ہوا۔ ہماری خواہش تھی کہ ہم اس کا فائنل نائٹ میں کروائیں۔ لیکن ہماری یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ میں جب باجوڑ کرکٹ ایسوسی ایشن کا صدرتھا تو میں نے محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کو بتادیا تھا کہ یہ کام ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے محکمے کو صرف لائٹس پول کیلئے دو ایسٹی میٹ (تخمینے) دئے تھے ایک 61 لاکھ روپے کا منصوبہ تھا اور ایک 81 لاکھ روپے کا منصوبہ تھا۔ پتہ نہیں کہ محکمہ نے اس پر کام کیوں نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ کرکٹ گراؤنڈ میں جو لائٹس لگائی گئیں اس میں کرکٹ تو دور کی بات دیگر کھیل بھی ممکن نہیں، نہ تو اس میں فٹ بال ہوسکتا ہے اور نہ ہی والی بال کا میچ، کیونکہ یہ انتہائی کمزور لائٹس ہیں۔
محمد اسماعیل کے مطابق کرکٹ گراؤنڈ کی لیولنگ بھی ٹھیک نہیں ہوئی اور گراؤنڈ میں فیلڈرز کو مشکلات ہیں۔
محمد اسماعیل نے بتایا کہ کرکٹ میچ کے دوران جب فیلڈر ڈائیو لگاتا ہے تو اکثر فیلڈرز زخمی ہوجاتے ہیں۔
“یہاں پر چونکہ ہارڈ بال میچز ذیادہ ہوتے ہیں اور اس کیلئے پروپر لیولنگ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ باجوڑ سپورٹس کمپلکس میں موجود چلڈرن پارک میں لگائے گئے جھولے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکے ہیں اور دو ماہ کے اندر ہی خراب ہوگئے ہیں۔
اسماعیل کے مطابق لیولنگ اور چلڈرن پارک پر بھی لاکھوں روپے خرچ کئے گئے مگر یہ پیسے بھی ٹھیک نہیں لگے۔ اس کے علاوہ ٹینس کورٹ پر بھی لاکھوں خرچ ہوئے مگر کوئی فائدہ نہیں۔ اسی طرح سرکاری خزانے کے لاکھوں روپے خرد برد کا شکار ہوگئے ہیں۔
باجوڑ سپورٹس کمپلکس میں تعینات ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر تاج وزیر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ محکمہ سی اینڈ ڈبلیو نے باجوڑ سپورٹس کمپلکس میں ہونے والے منصوبوں کے ساتھ مذاق کیا ہے۔ ان منصوبوں کی بنیادی غلطی محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کی ہے اس میں کسی اور کی غلطی نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب اس منصوبے کیلئے پی سی ون تیار ہورہا تھا تو اس کیلئے ٹیکنیکل لوگوں کو ہائیر نہیں کیا گیا تھا۔ حالانکہ آج کل سب کچھ انٹرنیٹ پر موجود ہوتا ہے اور انٹرنیٹ کے ذریعے یہ سرچ کیا جاسکتا تھا کہ کرکٹ گراؤنڈ میں کس قسم کی لائٹس لگنی چاہئیں، لیکن سی اینڈ ڈبلیو میں موجود افسران نے اتنی تکلیف نہیں کی کہ اس کو سرچ کرلیتے۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ سی اینڈ ڈبلیو نے پی سی ون میں عام لائٹس ڈالی تھیں اور اس منصوبے کیلئے بہت کم رقم منظور کی گئی تھی جس کے نتیجے میں انتہائی ناقص کام ہوا ہے اور اب یہ ہمارے کام نہیں آرہا اور الٹا ہم پر بوجھ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خدانخواستہ اگر تیز طوفان آجائے تو یہ لائٹس گر بھی سکتی ہیں جس سے قیمتی جانیں ضائع ہوسکتی ہیں۔ یہ ہمارے کام نہیں آرہی ہیں لہٰذا اس کو اب اگر ہٹادیا جائے تو بہتر ہوگا۔ یہ محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کی نااہلی اور نالائقی ہے۔ اگر محکمہ سی اینڈ ڈبلیو والے ایک گھنٹہ تکلیف اٹھاتے اور تھوڑا بہت ریسرچ کرتے تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی طرف کوئی مسئلہ نہیں تھا اگر محکمہ ذیادہ پیسے پی سی ون میں لکھتا تو حکومت ذیادہ پیسے دے دیتی، مگر محکمہ سی اینڈ ڈبلیو نے انتہائی غفلت سے کام لیا ہے اور اس وجہ سے 57 لاکھ روپے قومی خزانے کو نقصان پہنچا ہے۔
کرکٹ گراؤنڈ کے لیولنگ کے حوالے سے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر نے بتایا کہ میں اس کام سے بھی مطمئن نہیں ہوں کیونکہ اب بھی گراؤنڈ میں کھڈے موجود ہیں اور صحیح لیولنگ نہیں کی گئی ہے۔
چلڈرن پارک کے جھولوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ بھی مذاق کیا گیا ہے اور دو ماہ کے اندر اندر جھولے خراب ہوگئے ہیں۔
ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر نے بتایا کہ اب ان لائٹس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، ہماری محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے ساتھ بات چیت جاری ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ پی سی ون کو دوبارہ بناکر اچھی لائٹس لگا لیں۔
رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت محکمہ تعمیرات (سی اینڈ ڈبلیو) بلڈنگ سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق باجوڑ سپورٹس کمپلکس کے کرکٹ گراؤنڈ میں لگائی گئی فلڈ لائٹس پر کل 57 لاکھ روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ جس میں ایک ہیوی جنریٹر اور گراؤنڈ میں چار پولز کیتنصیب بھی شامل ہے۔
ایک پول میں 15 لائٹس لگائی گئی ہیں۔ ایک بلب 200 واٹ کا ہے۔ محکمہ کے ایکسین حیات اللہ جان کے مطابق اشتہار کے ٹینڈر میں 200 واٹ کے بلب لگانے کا لکھا ہے لیکن ہم نے 250 واٹ کا بلب لگایا تاکہ ذیادہ روشنی دیں۔ ایک لائٹ کی قیمت 24 ہزار روپے ہے۔ اس کے علاوہ لائٹس کا فریم 15 ہزار روپے کی لاگت سے لگایا ہے۔ جنریٹر پر 18 لاکھ روپے لاگت آئی ہے۔
حیات اللہ نے بتایا کہ ہمیں جو ایسٹی میٹ ملتاہے ہم اس کے مطابق منصوبے پر کام کرتے ہیں۔ اگر پیسے کم ہوں تو پھر ہم اس سکیم کو مسترد کرتے ہیں لیکن اکثر سیاسی دباؤ کی وجہ سے مسترد نہیں کرسکتے اور اس وجہ سے پھر ٹھیک کام نہیں ہوتا۔
انہوں نے بتایا کہ چلڈرن پارک پر 16لاکھ 80ہزار روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ جبکہ کرکٹ گراؤنڈ کے لیولنگ پر ایک لاکھ 90 ہزار روپے خرچ کیے گئے ہیں۔
سپورٹس کمپلیکس میں کیے گئے کام کے حوالے سے ایک غیرجانبدار ماہر تعمیرات سے آج ڈیجیٹل نے کمنٹس کے لئے رابطہ کیا جس میں باجوڑ سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر تعمیرات اور کنسٹرکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بتایا کہ باجوڑ سپورٹس کمپلیکس کر کٹ گراونڈ میں لگائی گئی لائٹس اور باقی کام خورد برد کا شکار ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں یہ روایت عام ہے کہ ایک ٹھیکہ دارکام کا ٹھیکہ لے کر دوسرے ٹھیکہ دار پر فروخت کرتا ہے اور وہ ٹھیکہ دار کسی اور ٹھیکہ دار پر فروخت کرتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ باجوڑ سپورٹس کمپلکس میں جو کام ہوا ہے یہ کام ایک ٹھیکیدار کو مل گیا جس کے بعد اس نے ایک اور ٹھیکیدار کو دیدیا اور دوسرے نے تیسرے ٹھیکہ دار کو بھیج دیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ ٹھیک کام نہیں ہوا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جہاں تک ریٹ کی بات ہے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ ٹینڈر کے وقت جو ٹھیکہ دار کم تخمینہ دیتا ہے تو کام اسی کو ہی دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ کم قیمت اور غیر معیاری اشیاء کا استعمال کرتا ہے کیونکہ کم قیمت میں کمزور چیز ہی خریدی جاسکتی ہے۔
Comments are closed on this story.