Aaj News

اتوار, نومبر 17, 2024  
14 Jumada Al-Awwal 1446  

حکومت اور پی ٹی آئی میں بیک ڈور مذاکرات کی بازگشت

اسمبلیاں تحلیل ہونے کے شور میں کپتان کا ایک اور کھلاڑی پنجاب کابینہ میں شامل
شائع 07 دسمبر 2022 04:26pm

کپتان کا ایک اور کھلاڑی پنجاب کابینہ کا حصہ بن گیا۔ خیال احمد کاسترو نے بدھ کو صوبائی وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔ گوکہ وہ فی الوقت وزیر بے محکمہ ہیں لیکن ان کی کابینہ میں شمولیت اتنی بڑی پیشرفت ہے کہ اس کے نتیجے میں اسمبلیاں تحلیل ہوں گی یا نہیں، اس پر کئی سوال اٹھ گئے ہیں۔

اگر اسمبلیاں تحلیل ہی کرنا ہیں تو پھر کابینہ میں نئے وزراء کیوں شامل کئے جارہے ہیں۔ کپتان کے کھلاڑی کہتے ہیں کہ وزارت کیا چیز ہے یہ تو جان بھی اس کی امانت ہے۔

دوسری طرف بیک ڈور رابطوں کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ ساتھ ہی اس فارمولے پر کام ہورہا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہوں تو صرف دو نہیں بلکہ تمام کی تمام۔ اس کے لئے کچھ قوتیں اکٹھی ہونا شروع ہوگئی ہیں اور اشارے بھی ایسے نظر آرہے ہیں کہ کپتان کے 15 سے 20 دسمبر تک اسمبلیاں تحلیل ہونے کے اعلان میں کچھ تاخیر ہوجائے گی۔

مگر اس میں کھلاڑیوں کا اس شعر کی طرح کہنا ہے کہ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔ یعنی کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ ایک تو تاخیر ہونی نہیں اور اگر تاخیر ہوئی تو اس میں بھی فائدہ پی ٹی آئی کا ہی ہونا ہے کیونکہ عمران خان کا بیانیہ مضبوط ہورہا ہے اور پی ڈی ایم عوام میں مزید مقبولیت کھوتی جارہی ہے. دوسرا یہ کہ پھر حکومت کو تمام اسمبلیاں تحلیل کرنا پڑیں گی اور پھر بھی فائدہ پی ٹی آئی کا ہی ہوگا۔

حال ہی میں پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری اور مسرت جمشید چیمہ اس بات کی تصدیق کرچکے ہیں کہ بات چیت ہوتی رہتی ہے لیکن ہمارے مذاکرات کا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے کہ قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا جائے، جب حکومت اس بات پر آمادگی ظاہر کرے گی تو ہم تیار ہیں۔ دوسری طرف وفاقی وزراء کہہ چکے ہیں کہ مشروط مذاکرات نہیں ہوتے اور اب ویسے بھی مذاکرات عمران خان کی ضرورت ہیں ہماری نہیں، اگر پی ٹی آئی نے اسمبلیاں توڑنی ہیں تو توڑ دے ہم انتخابات میں جانے کے لئے تیار ہیں۔

یہاں اپوزیشن اور حکومت دونوں پر یہ محاورہ فٹ بیٹھتا ہے کہ کہنا آسان اور کرنا مشکل ہوتا ہے. عمران خان اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کرکے آگے کی تاریخ دے چکے ہیں اور کہیں عدالتوں سے جڑے فلمی ڈائیلاگ ”تاریخ پہ تاریخ“ کے مصداق معاملہ نہ ہوجائے کیونکہ پی ٹی آئی کے سب سے بڑے اتحادی اور پنجاب کے وزیر اعلی گو کہ اعلان تو کرتے ہیں کہ عمران خان کا ایک اشارہ اگلے سیکنڈ میں اسمبلی تحلیل مگر دوسرے ہی سانس میں کہہ ڈالتے ہیں کہ مارچ تک دیکھ لیں کہیں۔ یہ سال کا مہینہ مارچ کی بات کرتے ہیں یا سیاسی مارچ ابھی اس کی وضاحت بھی ضروری ہے۔

دوسری جانب پی ڈی ایم کی طرف سے یہ کہنا کہ اسمبلیاں توڑیں ہم انتخابات کے لئے تیار ہیں یہ بھی اتنا آسان نہیں ہے. پی ڈی ایم عوام میں کیا بیانیہ لے کر جائے گی اس کے پاس تو بیانیہ ہی کوئی نہیں۔ تو دونوں طرف سے کوششیں یہی ہورہی ہیں کہ مذاکرات ہوں اور متفقہ حل نکلے.

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی لاہور میں وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات بھی حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات کی ایک کڑی تھی۔

سیاسی اشارے تو بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی کھچڑی پک رہی ہے، کہاں پک رہی اور کون پکا رہا ہے اس کا انتظار ہے۔ مگر یہاں چوہدری پرویز الہیٰ کا وزیر اعلیٰ پنجاب بننے سے پہلے کا ایک فقرہ موزوں آتا ہے کہ ”کھچڑی پک رہی ہے کب کھائی جاتی ہے اس کا تو وقت ہی بتائے گا“ اور اس کا بھی وقت ہی بتائے گا کہ بیک ڈور مذاکرات ہورہے ہیں یا نہیں۔ اگر ہوبھی رہے ہیں تو اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں اس کا بھی وقت ہی بتائے گا۔

pti

Federal govt

punjab cabinet

Punjab Government

back door discussion