’مذاکرات دوبارہ شروع ہوسکتے ہیں، کالعدم ٹی ٹی پی سے غیر رسمی رابطے بحال ہیں‘
ترجمان خیبرپختونخوا حکومت بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے دوبارہ مذاکرات شروع ہوسکتے ہیں، ہم افغان حکومت سے رابطے میں ہیں جو انہیں ایک میز پر لاسکتی ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر سیف نے کہا کہ وقتی طور پر ٹی ٹی پی سے مذاکرات کو دھچکا لگا ہے، اس سے قبل سیز فائر کی پیشکش بھی کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے ہی آئی تھی جسے ہم نے قبول کیا تھا تاہم دو ڈھائی ماہ بعد دوبارہ کارروائیوں کا آغاز ہوا جس کی وجہ معلوم نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ غیر رسمی رابطے بحال ہیں، آپس میں گفتگو ہوتی رہتی ہیں جب کہ کابل میں ان سے دو بار رسمی ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں۔
ترجمان کے پی حکومت کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سیز فائر پہلے ہی ختم کرچکے تھے، ان کے جاری کیے گئے اعلامیے کی کوئی اہمیت نہیں، سوات میں واقعات کے بعد کارروائیاں ایک بار پھر شروع ہوگئی تھیں۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ ’اعلامیہ جاری کرنے کے بعد میں نے ان سے رابطہ کرکے افسوس کا اظہار کیا، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اعلامیے کا مطلب مذاکرات ختم کرنا نہیں، ان کا نختہ ہے فوج ان کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، البتہ مذاکرات دوبارہ شروع ہوسکتے ہیں اور افغان حکومت سے رابطے میں ہیں جو انہیں ایک میز پر لاسکتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ ٹی ٹی پی نے حکومت پاکستان کے ساتھ جون میں طے پانے والی سیز فائر (جنگ بندی) کے خاتمے کا اعلان کیا جب کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے انتہا پسند جنگجوؤں کو ملک بھر میں حملے کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔
ترجمان خیبرپختونخوا حکومت کا مزید کہنا تھا کہ عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی) کو کالعدم تنظیم کی جانب سے اگر دھمکی ملی ہے تو وہ ثبوتوں کے ساتھ متعلقہ تھانے میں رپورٹ درج کروائیں جس کے بعد اس پر قانونی کارروائی عمل میں لے آئیں گے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ اے این پی کی خیبر پختونخوا میں کوئی سیاسی حیثیت نہیں جس پر کالعدم ٹی ٹی پی ان سے پیریشان ہو اور انہیں دھمکیاں دے، لہٰذااے این پی ڈرامہ کر رہی ہے۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے ترجمان خیبرپختونخوا حکومت بیرسٹر سیف کے بیان کے رد عمل میں کہا کہ ’صوبائی حکومت کے نمائندے کے اپنے ذاتی خیال ہوسکتے ہیں، البتہ کیا مرکزی حکومت کی پالیسی یا آئین کے تحت افغانستان میں موجود پاکستانی کسی گروہ سے بات کرسکتے ہیں، میرے خیال میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ افغان حکومت اس وعدے کے تحت آئی تھی، دوحا معاہدے میں لکھا تھا کہ افغانستان کا ساحل کسی کے ساتھ استعمال نہیں ہوگا، ہمیں افغان حکومت کو یاد دلانا چاہیے جب کہ مذاکرات کرانا صوبائی حکومت کا کام نہیں۔
محمود شاہ کا کہنا تھا کہ یہ تھریڈ اتنا بڑا نہیں لیکن اسے غیر متعلقہ لوگوں سے مذاکرات کرکے بڑھا دیا گیا ہے، لکی مروت میں حملہ ہوا، اس گروپ کو ڈی آئی خان گروپ کہتے ہیں جو گل بہادر کے ساتھ ہے جوکہ جنوبی وزیرستان کے شمال میں کچھ آپریشن کرسکتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ کچھ علاقے کے لوگ شامل ہیں۔
بریڈیگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے کہا کہ یہ تھریٹ بڑا نہیں ہے، لہذٰا اپنی سرحد کو محفوظ رکھنے کے لئے ٹی ٹی پی کے خلاف سکیورٹی فورسز اور پولیس کو آپریشن کرنا چاہیے۔
اس موقع پر سینیٹر سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’ہم ریاست پاکستان ہیں، ہمارے پاس مذاکرات کے علاوہ بہت آپشنز ہیں، کوئی ہم سے مذاکرات کرنا چاہے تو آئین پاکستان کے حدود میں رہ کر کرسکتا ہے، مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھنے چاہیے، لیکن کالعدم ٹی ٹی پی کا تھریٹ اتنا بڑا نہیں، ہم انہیں پہلے شکست دے چکے تھے، البتہ ہمیں ٹی ٹی پی کے بجائے افغان حکومت سے براہ راست بات کرنی چاہیے۔‘
Comments are closed on this story.