Aaj News

اتوار, نومبر 24, 2024  
21 Jumada Al-Awwal 1446  

عمران خان کے بیان پر نجی ٹی وی کا فیکٹ چیک ہی غلط نکلا

بانی پاکستان نے بیان کب دیا۔ مسلح افواج سے کیا چاہتے تھے
اپ ڈیٹ 30 نومبر 2022 08:57pm

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے بدھ کے روز نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس جنرل ساحر شمشاد مرز اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو عہدے سنبھالنے پر مبارک دی اور ساتھ ہی قائداعظم محمد علی جناح کا ایک بیان شائع کیا گیا جس میں بانی پاکستان کے انگریزی میں الفاظ ہیں، ”مت بھولیں کہ مسلح افواج پاکستان کی خادم ہیں اور آپ قومی پالیسی نہیں بناتے۔ یہ ہم سویلین ہیں جو معاملات طے کرتے ہیں اور یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ کو جو ہدف سونپا جائے اسے پورا کریں۔“

عمران خان نے ان الفاظ کے نیچے لکھا، ”قائداعظم مسلح افواج سے، اگست 14، 1947“، یعنی قائداعظم نے یہ بات مسلح افواج سے پاکستان بننے کے دن 14 اگست 1947 کو کہی تھی۔

اس بیان پر نجی ٹی وی چینل جیو نے ایک فیکٹ چیک رپورٹ بنائی اور دعویٰ کیا کہ عمران خان نے غلط تاریخ لکھی ہے۔ قائداعظم محمد علی نے یہ بیان 14 جون 1948 کو آرمی اسٹاف کالج کوئٹہ میں خطاب کرتے ہوئے دیا تھا۔ اس دعوے کو دیگر کئی چینل بھی دہرا رہے ہیں۔

اس فیکٹ چیک پر عمران خان کے کئی حامیوں کا خیال ہے کہ شاید سابق وزیراعظم نے سال لکھتے وقت ٹائپنگ کی غلطی کی ہے۔ کچھ دیگر کا کہنا تھا کہ اہم بات قائداعظم کے جملے ہیں تاریخ نہیں۔

تاہم حقیقت یہ ہے کہ نجی ٹی وی کی جانب سے کیا جانے والا یہ فیکٹ چیک غلط ہے۔ 14 جون کو قائداعظم نے اسٹاف کالج کوئٹہ میں خطاب ضرور کیا تھا اور اپنے خطاب میں انہوں نے مسلح افواج کے کردار پر بات بھی کی تھی، لیکن مذکورہ بالا جملے اس خطاب میں کبھی استعمال نہیں کیے۔

14 جون کا خطاب اپنی ایک الگ اہمیت رکھتا ہے۔

وہ جملے جن کے سبھی شیدائی لیکن پس منظر سے ناواقف

مسلح افواج کے قوم کے خادم ہونے اور سویلین کے فیصلہ سازی میں کردار سے متعلق قائداعظم محمد علی جناح کے تاریخی جملوں پر پہلے بھی کئی بار پاکستان میں رسہ کشی ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود اس بیان کا پس منظر جاننے کی کوششیں بہت کم ہوئیں ہیں۔

سال 2008 میں مسلم لیگ (ن) نے دو اشتہارات شائع کیے تھے۔ ان میں سے ایک اشتہار پر قائداعظم کا یہی بیان تھا اور دوسرے اشتہار میں قائداعظم کا ایک اور قول نقل کیا گیا تھا جو یہ تھا، ”مجھے یقین ہے کہ جمہوریت ہمارے خون اور ہڈیوں کے گودے میں واقعی موجود ہے۔ بس ہوا یہ ہے کہ صدیوں کے حالات نے خون کی گردش کو سرد کردیا ہے۔ یہ منجمد ہو گیا اور ہماری شریانیں کام نہیں کر رہیں۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اب خون دوبارہ گردش کرنے لگا ہے۔ یہ عوام کی حکومت ہوگی۔“

اس وقت انگریزی روزنامے ڈیلی ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ نواز لیگ نے پہلے اشتہار میں مسلح افواج کے عوام کے خادم ہونے کی جو بات (“مت بھولیں کہ مسلح افواج پاکستان کی خادم ہیں اور آپ قومی پالیسی نہیں بناتے۔ یہ ہم سویلین ہیں جو معاملات طے کرتے ہیں) قائداعظم سے منسوب کی ہے وہ بانی پاکستان نے کوئٹہ اسٹاف کالج سے اپنے خطاب میں کسی بھی موقع پر نہیں کہی تھی۔ اخبار کا یہ بھی کہنا تھا کہ دوسرے اشتہار میں قائداعظم کا جو قول نقل کیا گیا وہ جناح کی 24 اپریل 1943 کو دہلی میں کی گئی تقریر سے لیا گیا ہے۔ یعنی وہ قیام پاکستان سے پہلے کے حالات پر ہے۔

جب اشتہارات کا واقعہ پیش آیا نوازلیگ اکتوبر 1999 کی فوجی کارروائی کو یاد کر رہی تھی جس میں نواز شریف معزول ہوئے تھے۔ پارٹی کے سربراہ نواز شریف کچھ ہی عرصے بعد میمو گیٹ اسکینڈل میں پیپلز پارٹی کے خلاف فوج کے نقطہ نظر کی حمایت کرتے دکھائی دے رہے تھے۔

برسوں بعد جب نواز شریف اپنی تیسری حکومت بھی گنوا بیٹھے تو انہیں ایک بار پھر قائداعظم کا یہی قول یاد آگیا۔ نواز شریف نے 12 اکتوبر 2020 کو پی ٹی وی کے گیٹ پھلانگتے فوجیوں کی تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی اور ساتھ ہی قائداعظم کے الفاظ پر مبنی الفاظ کی گرافک شیئر کی۔ ”مت بھولیں کہ مسلح افواج پاکستان کی خادم ہیں اور آپ قومی پالیسی نہیں بناتے۔ یہ ہم سویلین ہیں جو معاملات طے کرتے ہیں اور یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ کو جو ہدف سونپا جائے اسے پورا کریں۔“

یہ وہ وقت تھا جب عمران خان اقتدار میں تھے اور فوج کے کردار کی تعریف کرتے دکھائی دیتے تھے۔ انہوں نے ایک برس قبل جنرل باجوہ کو توسیع دی تھی۔ خود نواز شریف کی جماعت نے اس توسیع کی حمایت کی تھی۔

سن 2008 میں قائداعظم کے اقوال کو ن لیگ کی جانب سے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر اس وقت بہت لے دے ہوئی اور یہ معاملہ اتنی شدت اختیار کر گیا کہ بھارتی اخبارات نے بھی اس کی کوریج کی۔

قائداعظم نے بیان کہاں دیا

ڈیلی ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں فیکٹ چیکٹ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ قائداعظم نے مسلح افواج کے عوام کے خادم ہونے کی بات اس وقت کے کرنل اکبر خان سے بات کرتے ہوئے کہی تھی۔ تاہم زیادہ تفصیل نہیں بتائی گئی۔

جناح کے اس قول کا ایک بڑا مضبوط تاریخی حوالہ ایئرمارشل (ر) اصغر خان کی کتاب We’ve Learnt Nothing from History (ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا ہے) میں ملتا ہے۔ مضبوط حوالہ اس لیے کہ اصغر خان ان فوجی افسران میں شامل تھے جن سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے یہ وارننگ دی تھی کہ پالیسی طے کرنا مسلح افواج کا نہیں بلکہ سویلین قیادت کا کام ہے۔

اپنی کتاب کے صفحہ تین (2005 آکسفورڈ یونیورسٹی پریس) پر اصغر خان لکھتے ہیں کہ قائداعظم سے ان کی دوسری ملاقات 14 اگست 1947 کو ہوئی تھی۔ اصغر خان لکھتے ہیں،

“مجھے جناح صاحب سے ملنے اور ایک اہم موضوع پر ان کے خیالات جاننے کا دوسرا موقع 14 اگست 1947 کو ملا۔ بطور گورنر جنرل پاکستان انہوں نے گورنر جنرل ہاؤس کے لانز پر ایک بڑا استقبالیہ دیا تھا جو اب گورنر ہاؤس کراچی ہے۔ تقریب میں مسلح افواج کے درجن بھر افسران شامل تھے جنہیں مدعو کیا گیا تھا۔ دیگر میں سے ایک لیفٹننٹ کرنل (بعد میں میجر جنرل) اکبر خان تھے جنہیں راولپنڈی سازش کیس سے شہرت ملی۔ اکبر خان نے تجویز دی کہ ہمیں قائداعظم سے بات کرنا چاہیے۔ قائد اپنے مہمانوں کے پاس جا کر ان سے ملا رہے تھے اور جب ہم قریب آئے انہوں نے ہم سے حال چال پوچھا۔ اکبرخان نے جواب دیا کہ ہم بہت خوش ہیں کہ ہم ایک آزاد اور خودمختار ملک کے قیام میں کامیاب ہوگئے اور ہمیں امید ہے کہ ان [قائداعظم] کی قیادت میں ہماری صلاحیتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا۔

تاہم انہوں [اکبر خان] نے مزید کہا کہ انہیں اس بات پر مایوسی ہوئی ہے کہ مسلح افواج میں اعلیٰ عہدے برطانوی افسران کو دیئے گئے ہیں جو اب بھی ہماری تقدیر کے مالک ہیں۔ قائداعظم جو خاموشی سے سن رہے تھے، انہوں نے اپنی انگلی اٹھائی اور کہا، ’مت بھولیں کہ آپ ریاست کے خادم ہیں۔ آپ قومی پالیسی نہیں بناتے۔ یہ ہم عوامی نمائندے ہیں جو فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک کیسے چلے گا۔ آپ کا کام یہ ہے کہ اپنے سویلین حکمرانوں کے فیصلوں کو مانیں۔‘“

اصغر خان کہتے ہیں، ”یہ کہہ کر قائداعظم آگے بڑھ گئے۔ قائد کے الفاظ کا ظاہر ہے اکبر خان پر کوئی اثر نہیں ہوا جنہوں نے چند برس بعد لیاقت علی خان کی حکومت الٹنے کی کوشش کی اور یہ واقعہ راولپنڈی سازش کیس کے طور پر مشہور ہوا۔“

قائداعظم کے الفاظ میں تحریف؟

اصغر خان نے اپنی کتاب میں قائداعظم محمد علی جناح کے جو الفاظ انگریزی میں نقل کیے ہیں اور بانی پاکستان کا جو بیان اکثر نقل کیا جاتا ہے اس میں معمولی سا فرق ہے۔

اصغر خان کی کتاب کے مطابق قائداعظم نے کہا کہ مسلح افواج ریاست کی خادم ہیں، عوامی نمائندے فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک کیسے چلے گا۔ اور مسلح افواج کی ذمہ داری ہے کہ وہ سویلین حکمرانوں کے فیصلوں پر عمل کریں۔

“Never forget that you are the servants of the state. You do not make policy. It is we, the people’s representatives, who decide how the country is to be run. Your job is only to obey the decision of your civilian masters.”

جب کہ بعد میں نوازشریف سے لے کر عمران خان نے جو قول نقل کیا اس کے مطابق قائداعظم نے کہا کہ مسلح افواج عوام کی خادم ہیں، ہم سویلین معاملات طے کرتے ہیں اور آپ کا فرض ہے کہ جو اہداف آپ کو سونپے جائیں وہ پورے کریں۔

“Do not forget that the armed forces are the servants of the people. You do not make national policy; it is we, the civilians, who decide these issues and it is your duty to carry out these tasks with which you are entrusted.”

اس بیان میں اگر تحریف ہوئی ہے تو یہ واضح نہیں کہ اس کا سبب کیا تھا۔ جب ہم نے فیکٹ چیک کی کوشش کی تو معلوم ہوا ہے کہ خود اصغر خان نے بھی یہ دوسرا ورژن استعمال کیا ہے۔ انہوں نے ایک کتاب The Pakistan Experience: State and Religion کی ایڈیٹنگ کی اور اس میں ایک مضمون بھی لکھا۔ اس مضمون میں عمر اصغرخان نے قائداعظم کے بیان کا وہی ورژن شائع کیا ہے جو نواز شریف اور عمران خان نے نقل کیا۔

محمد علی جناح مسلح افواج سے کیا چاہتے تھے

اصغر خان اور اکبر خان سے محمد علی جناح نے جب گفتگو کی اس وقت افواج پاکستان کا قیام گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت عمل میں آچکا تھا۔ اسی ایکٹ کے تحت پاکستان کا قیام ہوا تھا اور یہی 1956 تک پاکستان کا آئین تھا۔

قیام پاکستان کے 8 ماہ بعد 14 جون 1948 کو قائداعظم محمد علی جناح نے اسٹاف کالج کوئٹہ میں خطاب کیا۔ یہ خطاب خاصا مختصر تھا اور اس میں قائداعظم نے مسلح افواج کو ان کا حلف بھی پڑھ کا سنایا۔ حلف کی عبارت حذف کر دی جائے تو پورا خطاب محض ساڑھے 400 الفاظ پر مشتمل تھا۔

جناح بظاہر فوجی افسران سے خاصے غیرمطمئن تھے۔ رسمی جملوں کے بعد وہ جلد ہی اصل معاملے پر آگئے۔

”ایک اور بات جو میں کہنے پر مجبور ہوں کیونکہ ایک یا دو اعلیٰ رینک کے افسران کے ساتھ گفتگو کے دوران مجھے معلوم ہوا ہے کہ انہیں اس حلف کی اہمیت کا اندازہ نہیں جو پاکستان کے فوجی اٹھاتے ہیں۔“

جناح نے کہا کہ حلف کے الفاظ سے زیادہ اس کی روح کی اہمیت ہے۔ اس کے بعد انہوں نے چند جملے مزید کہے اور پھر وہ الفاظ ادا کیے جو کئی جگہ نقل ہوچکے ہیں۔

”میں چاہتا ہوں کہ آپ یاد رکھیں اور اگر آپ کے پاس وقت ہو تو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ پڑھیں جو ردوبدل کے ساتھ پاکستان کے لیے اختیار کیا گیا ہمارا آئین ہے، کہ ایگزیکٹو اتھارٹی پاکستان کے سربراہ حکومت سے چلتی ہے جو گورنر جنرل ہے۔ لہذا جو بھی احکامات آپ کو ملتے ہیں وہ اس وقت تک نہیں آ سکتے جب تک ایگزیکٹو سربراہ انہیں منظور نہ کرے۔ یہ قانونی پوزیشن ہے۔“

اس کے بعد جناح نے یہ بھی کہا کہ وہ فوجی افسران سے غیررسمی ملاقات کرنے میں خوشی محسوس کریں گے اور ملک کو درپیش مسائل حل ہونے کے بعد دفاعی افواج سے رابطے بڑھائیں گے۔

اس خطاب کے تین ماہ کے اندر محمد علی جناح انتقال کرگئے۔ پاکستان کے دیگر مسائل تو شاید حل ہوگئے ہوں۔ سول ملٹری تعلقات کا مسئلہ اب بھی موجود ہے۔

اور ہاں، عمران خان نے اپنی ٹوئٹ میں قائداعظم کے قول کے نیچے تاریخ غلط نہیں لکھی۔

Nawaz Sharif

Quaid e Azam

imran khan

Muhammad Ali Jinnah

Fact Check