آسٹریلیا کی سرزمین پر اسلام متعارف کرانے والے بلوچ اونٹ بان
سنہ 1860 بلوچ قوم کے اجداد کی آسٹریلیا میں آمد ہوئی اور اور سنہ 1900 کے اوائل تک انہوں نے اپنے ’صحرائی جہازوں‘ یعنی اونٹوں کو بطور زریعہ معاش استعمال کیا، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ آسٹریلوی معیشت میں کردار ادا کرتے ہوئے دوسرے پیشے اپنا لیے، جن میں اوور لینڈ ٹیلی گراف اور ٹرانس آسٹریلین ریلوے کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر شامل تھی۔
1884 میں، بلوچ اونٹ بانوں نے ہرگوٹ اسپرنگس (مری، جنوبی آسٹریلیا) میں ایک مسجد ہاتھ سے تعمیرکی، جو آسٹریلیا کی پہلی مسجد بھی ہے۔
مسجد کی اس تعمیر نے بلوچ کمیونٹی کو آسٹریلیا کی سرزمین پر اسلام کو متعارف کرانے والی قدیم ترین مسلم کمیونٹی بنا دیا۔
قصبے (مری) میں دو مساجد تھیں، جن میں سے شمالی علاقے میں واقع مسجد کو 1910 کے قریب خالی چھوڑ دیا گیا تھا۔
رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مسجد کو 1956 میں اس کے بزرگ نگراں سید غلام الدین نے جان بوجھ کر منہدم کر دیا تھا، جو مزید اس کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے تھے، کیونکہ بلوچوں کی کئی اولادوں نے اسلامی شعائر ترک کردئے تھے اور طویل عرصے سے اسلام پر عمل پیرا نہیں تھے۔
بہت سے بلوچوں نے اینگلو سیکسن (ایک ثقافتی گروہ جو ابتدائی قرون وسطی میں انگلینڈ میں آباد تھا) اور ایبوریجن خواتین سے شادی کی اور نینسی جوئے بلوچ جیسی ان کی اولادیں بلوچ آسٹریلوی کمیونٹی کو فخر کرتی ہیں۔
اپنے ابتدائی سالوں میں، جوائے بلوچ نے کک اور پورٹ آگسٹا پرائمری اسکولوں اور پورٹ آگسٹا ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔
انہوں نے تیوفیل اسٹیفن بلوچ سے شادی کی۔ جوائے بلوچ نے 1981 سے 1993 اور 1995 سے اپنی موت تک پورٹ آگسٹا (جنوبی آسٹریلیا) کی میئر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انہیں 2001 میں سینٹینری میڈل سے نوازا گیا اور 2007 میں ”جنوبی آسٹریلیا میں مقامی حکومت کی خدمات، خاص طور پر اقتصادی اور علاقائی ترقی اور پورٹ آگسٹا اور علاقے کی کمیونٹی کے لیے خدمات کے لیے“ آرڈر آف آسٹریلیا کی رکن کے طور پر مقرر کیا گیا۔
مقامی اخبار نے جوائے بلوچ کو ”بڑے دل والی آئرن لیڈی“ کا خطاب دیا۔
یہ سمجھا جاتا ہے کہ وائٹ آسٹریلیا کی پالیسی کے 77 سالوں میں مختلف نسل کے لوگوں کے بارے میں لٹریچر کو محدود کردیا گیا ہے۔ بلوچوں سمیت دیگر رنگ و نسل کے لوگوں کے بارے میں بہت سے ریکارڈ تباہ ہو چکے ہیں۔ اس طرح ان کی تاریخ اور مقام کا پتہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔
زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ اونٹ بان افغان تھے، حالانکہ وہ وہ بلوچ تھے اور زیادہ تر موجودہ پاکستانی علاقوں سے آئے تھے۔
بیجہ درویش
لیکن جن اونٹ بانوں کو بلوچ قرار دیا جاتا ہے انہی میں سے ایک انتہائی مشہور آسٹریلوی شخصیت ”درویش بیجہ جاکھرانی بلوچ“ بھی گزرے ہیں۔
درویش بیجہ جاکھرانی بلوچ (1862 – 1957)، جنہیں بیجہ درویش یا محض درویش بھی کہا جاتا ہے، ایک ”افغان“ اونٹ بان تھے جنہوں نے جنوبی آسٹریلیا کے علاقے مری میں آباد ہونے سے پہلے آسٹریلیا کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔
درویش بیجہ بلوچستان میں پیدا ہوئے، جو اس وقت برطانوی ہندوستان کا حصہ تھا۔
انہوں نے لارڈ رابرٹس کے ماتحت قندھار اور کراچی میں برطانوی افواج کے ساتھ خدمات انجام دیں، جہاں انہیں سارجنٹ کے عہدے سے نوازا گیا۔
بیجہ درویش 1890 میں بحری جہاز کے زریعے فریمینٹل کی بندرگاہ پہنچے۔ اس وقت، نام نہاد افغان (متعدد ممالک اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے) اونٹ بانوں کی کمیونٹیز آسٹریلیا میں پہلے ہی قائم ہو چکی تھیں اور وہ ایکسپلوریشن اور ٹرانسپورٹ میں شامل تھے۔
یہ وہی افغان تھے جنہوں نے اوور لینڈ ٹیلی گراف لائن کی تعمیر اور مغربی آسٹریلوی گولڈ فیلڈز کو کھولنے میں مدد کی تھی۔
دوست محمد جاکھرانی
بیجہ درویش واحد تاریخی بلوچ ہستی نہیں جنہیں آسٹریلیا کے عوام جانتے ہوں، دوست محمد کا نام آج بھی آسٹریلیائی اونٹ بان کمیونٹی میں عزت سے لیا جاتا ہے۔
دوست محمود جاکھرانی بلوچ (1873 - 1909) یا ”دوست محمد“ بھی ایک بلوچ نسل کے ”افغان“ اونٹ بان تھے۔
دوست محمد 1873 میں بلوچستان کے علاقے لال بھکر میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے 19ویں صدی کے آخر میں مغربی آسٹریلیا کی سونے کی کانوں، پلبرا اور مرچیسن علاقوں کی بندرگاہوں اور دور دراز اندرون ملک کان کنی اور چراگاہوں کی بستیوں کے درمیان سامان کی نقل و حمل کے لیے اپنے جانوروں کا استعمال کیا۔
دوست محمد پورٹ ہیڈلینڈ میں بہت سے اونٹوں اور املاک کے مالک تھے۔
ان کی شادی ترک نژاد آسٹریلوی اینی گریگو سے ہوئی تھی اور ان کے چھ بچے تھے۔
دوست محمد ایک دولت مند شخصیت تھے اور انہوں نے کمیونٹی کیلئے بہت کام کیا لیکن وہ اور اینی دونوں پرتشدد موت سے دوچار ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ دوست محمد کا قتل ان کے گھر میں اینی کے دو بھائیوں (سالوں) سے طویل لڑائی کے دوران ہوا۔ ان میں سے ایک نے دوست محمد کی کھوپڑی کے پچھلے حصے کو جراح کا بھاری حصہ مار کر توڑ دیا۔
دونوں بھائیوں پر جون 1909 میں بروم میں مقدمہ چلایا گیا لیکن انہیں قتل سے بری کر دیا گیا۔
دوست کے رشتہ داروں نے ان کی موت کا ذمہ دار اینی کے بھائیوں کو قرار دیا اور اینی کو ان کی بریت کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا۔
اینی کو دھمکیاں دی جانے لگیں اور وہ پریشان ہوکر ہندوستان واپس آگئیں، جہاں انہیں ایک رات سوتے ہوئے چھریوں کے وار سے قتل کردیا گیا۔
Comments are closed on this story.