موت سے چند گھنٹے قبل ارشد شریف امریکیوں کے ساتھ تھے، کینیائی اخبار
کینیا کے اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ قتل کئے جانے سے ایک دن پہلے پاکستانی صحافی ارشد شریف کچھ امریکیوں کے ساتھ تھے، اور اب کینیائی حکام ان امریکیوں کے بارے میں تفصیلات معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کینیائی اخبار ”دی نیشن“ کے مطابق جمعرات کو ڈائریکٹوریٹ آف کریمنل انویسٹی گیشن (DCI) سے منسلک جاسوسوں نے وقار احمد کا انٹرویو کیا۔ تفتیشی حکام نے شوٹنگ رینج ایمو ڈمپ کے مالک وقار احمد سے امریکیوں کے ایک گروپ کی شناخت کے بارے میں پوچھ گچھ کی جو وہاں تربیت لے رہے تھے۔
اخباری رپورٹ کے مطابق وقار احمد نے کینیڈین ہائی کمیشن سے رابطہ کیا ہے اور ارشد شریف قتل میں ملوث افراد میں نام شامل ہونے کے بعد تحفظ طلب کیا ہے۔
تحقیقات سے منسلک ایک جاسوس نے ”دی نیشن“ کو بتایا کہ وقار احمد نے اپنے بیان میں کہا وہ اور ارشد شریف نے کجیاڈو کاؤنٹی کے کجیاڈو ویسٹ میں واقع ایمو ڈمپ کیونیا میں ایک پارٹی میں شرکت کی تھی۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ جس رات انہیں (ارشد شریف کو) گولی مار کر ہلاک کیا گیا، وہ ان 12 لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے ایک پارٹی میں شرکت کی۔ یہ پارٹی شوٹنگ رینج کے اندر منعقد کی گئی تھی اور اس میں چھ امریکی شہریوں نے بھی شرکت کی تھی، جو کیمپ کے اندر موجود ایک بڑی ٹیم کے کمانڈر تھے۔
وقار احمد، ان کا خاندان اور ان کے بھائی خرم احمد، ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے مرکز میں ہیں، کیونکہ انہوں نے پاکستان سے فرار ہوکر کینیا آںے والے ارشد شریف کی میزبانی کی تھی۔
تفتیش کار اس ہتھیار کی بھی تلاش کر رہے ہیں جو کیون کمیو نامی ایک پولیس افسر پر گولی چلانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
کینیائی حکام کا کہنا ہے کہ ”ہم اب بھی تفتیش کررہے ہیں کہ وہ آتشیں اسلحہ کہاں ہے جو اس افسر پر گولی چلانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا، جو ارشد شریف کی گاڑی کو روکنے والوں میں شامل تھا۔“
چار افسران، ایک انسپکٹر، ایک سپرنٹنڈنٹ، ایک کانسٹیبل اور ایک کارپورل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب وہ ارشد شریف کی اس گاڑی کو روکنے والوں میں شامل میں تھے جسے خرم احمد چلا رہے تھے۔
مذکورہ افسران نے بیان میں کہا کہ ڈرائیور نے (گاڑی روکنے کے) احکامات کی خلاف ورزی کی اور گاڑی تیزی سے بھگا دی۔
پولیس ذرائع نے بتایا کہ صرف کانسٹیبل اور کارپورل نے گاڑی پر گولی چلائی لیکن جب گاڑی فرار ہوگئی انہوں نے زخمی افسر کیمیو کو کاجیاڈو کاؤنٹی کے ماگادی میں واقع جی ایس یو ٹریننگ اسکول میں واقع کلینک میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔
افسر نے کہا کہ ”یہ جاننا بھی دلچسپ ہوگا کہ امریکی کس طرح جوائنٹ (شوٹنگ رینج) تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور وہ کس کے دائرہ اختیار پر کیمپ میں تربیت لے رہے ہیں۔ اس طرح کے منصوبوں میں عام طور پر متعلقہ حکومتوں کے درمیان معاہدہ ہوتا ہے۔“
دوسری طرف پاکستانی حکومت کی طرف سے تشکیل دی گئی تفتیش کاروں کی ایک ٹیم قطر میں موجود ہے تاکہ یہ جاننے کی کوشش کی جا سکے کہ ارشد شریف ملک چھوڑ کر کینیا کیوں گئے۔
ٹیم، جس میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر اطہر واحد اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل عمر شاہد حامد شامل ہیں، نے وقار اور مسٹر خرم احمد کو ایک خط بھیجا، جس میں ارشد شریف کی رہائش گاہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج طلب کی گئی ہے۔ تاہم انہیں ابھی تک معلومات موصول نہیں ہوئی ہیں۔
ٹیم ان لوگوں کے رابطے کی تفصیلات بھی جاننا چاہتی تھی جو ارشد شریف کی موت کے دن ایمو ڈمپ کیونیا میں موجود تھے۔
پاکستانی ٹیم اس تنظیم کی تفصیلات جاننا چاہتی ہے جس سے امریکی ٹرینرز اور انسٹرکٹرز کا تعلق ہے اور ان لوگوں کے بارے میں بھی جاننا چاہتی ہے جنہوں نے دو ماہ کے دوران ارشد شریف سے کینیا میں ملاقات کی۔
اس کے علاوہ، وہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے آئی پیڈ اور سیل فون کہاں ہیں کیونکہ دونوں چیزیں آخری بار وقار احمد کے پاس دیکھی گئی تھیں۔
کینیائی پولیس کو دئیے گئے بیان میں وقار احمد نے کہا کہ انہوں ارشد شریف کا موبائل فون اور آئی پیڈ ایک انٹیلی جنس افسر کے حوالے کیا تھا جو صحافی کی موت کے بعد ایمو ڈمپ میں موجود تھا۔ انہوں نے افسر کی شناخت نہیں کی۔
دو ہفتے قبل پاکستان کی ٹیم نے بھی دونوں بھائیوں سے پوچھ گچھ کی اور افسران کو یقین دلایا کہ وہ مکمل تعاون کریں گے۔
Comments are closed on this story.