آرمی چیف کی تعیناتی: وزیراعظم ہاؤس کو سمری موصول
وزیردفاع خواجہ آصف نے تصدیق کردی ہے کہ پاک فوج کے اعلیٰ ترین عہدوں پر تقرری کا عمل آج سے شروع ہوگیا ہے۔
خواجہ آصف نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ یہ عمل انشاءاللہ جلد تمام تر آئینی تقاضوں کے مطابق تکمیل پاجائے گا۔
صحافتی حلقوں میں یہ بات زیرگردش ہے کہ نئے آرمی چیف کے معاملے پراتفاق رائے پونے کے بعد نئے چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اورآرمی چیف کی تعیناتی کی سمری وزیراعظم ہاؤس کوموصول ہوگئی ہے۔
ذرائع کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اورآرمی چیف کے ناموں پراتفاق رائے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کو وزارت دفاع کی جانب سے موصول ہونے والی سمری میں سینیارٹی اوراہلیت کی بنیاد پر 5 سے 6 نام شامل ہیں۔
اس حوالے سے وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت مشاورتی اجلاس میں وفاقی وزراء خواجہ آصف، راناثنااللہ اور ایازصادق شریک ہوئے اور سیاسی صورتحال سمیت اہم امورپرغورکیا۔
اپنی ٹویٹ میں پاک فوج کے اعلیٰ ترین عہدوں پہ تقرری کا عمل آج سے شروع ہونے کی تصدیق کرنے والے وزیردفاع نے میڈیا ٹاک میں کہا کہ، ”اتحادیوں کے ساتھ ہرقدم اور ہرسطح پرمشاورت جاری ہے اور اس حوالے سے کوئی ڈیڈ لاک نہیں ہے، سمری آنے پر ناموں سے متعلق بحث ہوگی ۔ افواج کی لیڈر شپ سے پوچھاجائے گا افواج کواعتماد میں لے کر پھرفیصلہ کیا جائے گا“۔
انہوں نے کہا کہ ، ”فی الحال ایسی کوئی پیشرفت نہیں ہوئی جو میڈیاپراطلاعات آرہی ہیں، میڈیا کا اپنا حق ہے لیکن بات وہی ہے جو میں نے آپ کو بتائی ہے اوراس حوالے سے روزانہ تبادلہ خیال ہورہا ہے“۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کہ چکے ہیں کہ عمران خان کی اعلان کردہ تاریخ سے پہلے ہی آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ ہوچکا ہوگا۔
جیونیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء کا کہنا تھا کہ جب بھی آرمی چیف کی تقرری ہوئی اس طرح کے حالات پہلے نہیں ہوئے،آرمی چیف کی تقرری پرعمران نیازی نے تماشہ لگانے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام ہوا۔انہوں نے کہا کہ یہ لانگ مارچ نہیں رینگ مارچ ہے جورینگ رہا ہے، راولپنڈی میں پی ٹی آئی کی تاریخ کا سب سے چھوٹا اجتماع ہوگا۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر صدرکی جانب سے سمری روکنے کی تجاویز کو مسترد کیے جانے کے بعد اطلاعات گرم تھیں کہ اس اہم تقررکا عمل آج سے شروع ہونے کا امکان ہے۔
موجودہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت 29 نومبرکوختم ہوگی اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 27 نومبر سے قبل ہی نئے آرمی چیف کی تعیناتی کردی جائے گی کیونکہ اس اہم تقرری کے امیدواروں میں سے ایک جنرل عاصم منیر 27 نومبر کو ہی ریٹائر ہونے والے ہیں۔
وزیراعظم آفس کے ذرائع کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع نئے آرمی چیف کے تقرر کی سمری 27 نومبر سے پہلے بھیج دے گی۔ اس حوالے سے حکومت، اتحادی اورملٹری اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں اورتینوں کے درمیان مشاورت کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔
چند روز قبل وزیردفاع خواجہ آصف بھی کہہ چکے تھے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا عمل پیر سے شروع ہوجائے گا اور اگلے ہفتے آرمی چیف کا نام بھی سامنے آجائے گا، البتہ جو بھی نام ہوا اس پرعسکری اور سیاسی قیادت کا مکمل اتفاق ہوگا۔ پیرکو تعیناتی کا عمل شروع ہوا تومنگل یا بدھ کو نام سامنے آجائے گا۔
اس سارے پراسیس کو متنازع بنانے کا قصوروارعمران خان کو ٹھہرانے والے خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ پاک فوج اور وزیراعظم شہباز شریف میں اتفاق سے بدھ تک نئے آرمی چیف کا نام آجائے گا۔ کوئی بھی فیصلہ اتحادیوں کی مشاورت کے بغیر نہیں ہورہا، جو نام سمری میں آئیں گے انہی میں سے ایک پر اتفاق ہوگا، تعیناتی میں کوئی ابہام نہیں لیکن عمران خان ابہام پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
اس سے قبل وزیراعظم شہبازشریف اپنے دورہ لندن کے دوران نواز شریف سے مشاورت کے بعد وطن واپسی پر تمام اتحادیوں کو اعتماد میں لے چکے تھے۔
دوسری جانب کئی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا تھا کہ اپنا اختیاراستعمال کرتے ہوئے صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن 25 روز تک روک سکتے ہیں۔
وزیرخارجہ بلاول بھٹوزرداری نے بھی گزشتہ روز پریس کانفرنس میں عمران خان سے حقیقی آزاری مارچ چند ہفتے کے لئے موخر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاتھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق سوال پرکہا تھا کہ یہ قانونی طور پروزیراعظم کی صوابدید ہے، لہٰذا پیپلز پارٹی وزیراعظم کے فیصلے کو سپورٹ کرے گی، البتہ اگرصدرمملکت عارف علوی نے اس ضمن میں کوئی غیرآئینی کام کیا تو انہیں نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔
اس پرپی ٹی آئی کے نائب صدر شاہ محمود قریشی کی جانب سے کہا گیاکہ آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر صدرعارف علوی اور پارٹی کی جانب سے سمری روکنے سے متعلق کوئی تجویز زیرِغورنہیں نہ ہی اس قسم کی کوئی گفتگو ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”ہمیں کسی شخصیت پراعتراض نہیں، سبھی اس عہدے کے اہل ہیں، ہماری کوئی ترجیح یا چوائس نہیں“۔
بلاول بھٹو کے بیان کو نامناسب قرار دینے والے شاہ محمود نے مزید کہا کہ، ”صدر عارف علوی نے اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھائیں، ابھی سمری آئی ہے نہ بھیجی گئی۔ صدر اس معاملے میں محتاط ہیں اور آئین و قانون کا احترام کرتے ہیں“ ۔
اس حوالے سے ترجمان وزیراعظم فہد حسین نے ڈان سے بات کرتے ہوئے صدر کی جانب سے ایسے کسی اقدام کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ آئین کے تحت نئے آرمی چیف کے تقرر کے اختیارات وزیر اعظم کے پاس ہیں اور وہ انہیں استعمال کرتے ہوئے موزوں ترین شخص کا انتخاب کریں گے۔ نئے آرمی چیف کے تقرر کا عمل آئینی طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔
اس ضمن میں صدرعارف علوی کے کردارسے متعلق فہد حسین کا کہنا تھا کہ ، ”صدر بھی اپنا وہی آئینی کردار ادا کریں گے جو اس حوالے سے آئین میں بیان کیا گیا“۔
معاملے پروزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانون و انصاف عرفان قادرکاکہنا تھا کہ صدرمملکت سمری نہیں روک سکتے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کا تقرر صرف وفاقی حکومت کا کام ہے۔ یہ آرٹیکل واضح کرتا ہے کہ فوج کی کمان اورکنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہے جس کی مزید وضاحت آرٹیکل 90 اور 91 میں کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر سمری مؤخر نہیں کرسکتے اورانہیں فوراً اس پر دستخط کرنا ہوں گے۔
Comments are closed on this story.