Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ 26 نومبر کی تاریخ تماشہ ختم ہونے کی تاریخ ہے۔
ایک بیان میں عمران خان کے خطاب پر رد عمل دیتے ہوئے مریم اورنگزیب نے کہ عمران خان کی سیاست، سازش اور تماشہ ختم، ان کے لئے اب سب کچھ ختم ہوچکا ہے۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ جھوٹی آزادی کے جھوٹ نے بے گناہوں کی جان لی، البتہ عمران خان نے مقدمہ دائر کرنے کی تاریخ نہیں بتائی، انہوں نے قومی مفادات سے کھیل کھیلا اور خارجہ پالیسی تباہ کی۔
وفاقی وزیر نے پی ٹی آئی چیئرمین کو مخطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان صاحب، 26 نومبر بھی امپائر کی انگلی اٹھے بغیر ہی گزر جائے گی۔
واضح رہے کہ عمران خان 26 نومبر بروز ہفتہ حقیقی آزادی مارچ کو راولپنڈی پہنچنے کی کال دے چکے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری کا نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر کہنا ہے کہ کوئی بھی تعینات ہو، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔
آج نہوز کے پروگرام ”روبرو“ میں گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان نے کہا ہے ہمیں نئے آرمی چیف لگانے والوں سے مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں 20 تاریخ کو راولپنڈی پہنچنا تھا، لیکن عمران خان پر قاتلانہ حملے کے باعث تاریخ میں تبدیلی کی گئی، 26 تاریخ ہفتے کا دن ہے اس لئے اس کا انتخاب کیا۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کو متنازع خود حکومت نے بنایا، مفرور لوگوں سے تعیناتی کے لئے مشاورت ہو رہی ہے، ہمیں تعیناتی سے مسئلہ نہیں، بلکہ مشاورت کرنے والوں سے مسئلہ ہے کیونکہ نواز شریف پاکستان کی عدالتوں سے مفرور ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا وزیراعظم سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرسکتے ہیں، وزیراعظم خفیہ معاملات پر مشاورت نہیں کرسکتے۔
فواد چوہدری نے طنزیہ کہا کہ شہبازشریف تعناتی پر اڈیالہ، مچھ اور لانڈھی جیل کے قیدیوں سے بھی مشاورت کرلیں۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ اداروں کے ساتھ لڑنا نہیں چاہتے، میرٹ پر آنے والے سے ہمیں کیا مسئلہ ہوسکتا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ صدرِ مملکت آئین کے مطابق ذمہ داری ادا کریں گے، انہیں عمران خان کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے لیکن ڈیفالٹ ہونے پر اسحاق ڈار نے کوئی پالیسی نہیں دی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے کشمیر پر کوئی بات نہیں کی، وزیر داخلہ دہشتگردی کے واقعات پر نہیں بولتے، ملک میں گیس نہیں جس کے باوجود مصدق ملک خاموش ہیں، تمام وزرا اپنی وزارتوں سے متعلق بات نہیں کر رہے۔
انہوں نے کہا کہ 77 وزراء ہیں لیکن گنتی کے لوگ بھی نظر نہیں آتے، یہ صرف اپنی وزارتوں سے پیسہ بنانے میں لگے ہیں، ملک میں بدترین انتظامی بحران ہے۔
پاکستان کی حقیقی آزادی کی تحریک کے کپتان عمران خان نے لانگ مارچ کی اصطلاح استعمال کرنے کی بجائے کارکنوں کو 26 نومبر دوپہر ایک سے دو بجے کے درمیان راولپنڈی پہنچے کی ہدایت کی ہے۔
اگرچہ حکومتی اتحاد کے رہنما بلاول بھٹو اس تاریخ اور راولپنڈی کے مقام کو اہم تعیناتی سے لنک کررہے ہیں۔ مگر عمران خان کے خطاب میں دیئے گئے اشارے اور زمان پارک میں قائدین کے درمیان ہونے والی مشاورت کچھ اور خبر دے رہے ہیں۔
عمران خان نے ایک بار پھر اشارہ دیا ہے کہ راولپنڈی کے پاور شو سے تحریک رکے گی نہیں بلکہ حقیقی آزادی تک جاری رہے گی۔ چند ہفتے قبل وہ اس لانگ مارچ کے بعد سندھ اور ملک کے دیگر شہروں میں جلسوں کا بھی اشارہ دے چکے ہیں۔
تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق عمران خان راولپنڈی میں بڑے عوامی اجتماع میں ایک بار پھر تفصیل سے ریجیم چینج اور انصاف پر مبنی نظام کا مقدمہ پیش کرکے کارکنوں کو آئندہ کی حکمت دیں گے۔
ذرائع کے مطابق چیئرمین تحریک انصاف اب ذہنی طور پر تیار نظر آتے ہیں کہ ان کا ٹارگٹ آئندہ عام انتخابات ہیں۔ عمران خان کے خیال میں وہ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں ووٹ بینک کے حوالے سے مثبت نتائج حاصل کرچکے ہیں اس لئے وہ آئندہ انتخابات تک ملک کے دیگر شہروں میں بھی جلسے کریں گے لیکن ان کا زیادہ فوکس سندھ پر رہے گا۔
دوتہائی کے حصول کے لئے عمران خان قومی اسمبلی کی نشستوں پر سندھ سے بھی بڑا حصہ لینا چاہتے ہیں۔
زمان پارک میں ہونے والے مشاورتی اجلاس سے جو اندرونی کہانی سامنے آرہی ہے، اس کے مطابق عمران خان ابھی اسلام آباد کو اپنے لئے ممنوعہ شہر قرار دیتے ہیں، انہیں گرفتاری یا انتقامی کارروائی کا خدشہ ہے۔
اس لئے انہوں نے اپنے لانگ مارچ کو اسلام آباد کی بجائے پنجاب کے بارڈر یعنی راولپنڈی تک محدود کرلیا ہے، وہ پنجاب اور اس کے بعد کے پی تک آزادانہ نقل و حرکت کریں گے مگر دارالحکومت اور سندھ کے دوروں کے لئے انہیں ابھی عدالتی تحفظ یا ضمانت حاصل کرنا ہوگی۔
اپریل 2022 کو اقتدار سے الگ ہونے کے بعد عمران خان نے مضبوط اعصاب کے ساتھ سیاسی جدوجہد جاری رکھی جس کا پہلا مرحلہ اب سات ماہ بعد راولپنڈی جا کر ختم ہونے کا قوی امکان ہے۔
سابق وزیراعظم نے پہلے ساڑھے چھ ماہ تک ملک بھر میں بڑے عوامی جلسے کئے اور اب وہ گذشتہ 21 روز سے لانگ مارچ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی دوران 3 نومبر کو جب عمران خان کا لانگ مارچ وزیرآباد کے قریب پہنچا تو ان کے کنٹینر پر فائرنگ کی گئی جس سے ایک شخص جاں بحق جب کہ عمران خان سمیت 13 افراد زخمی ہوئے۔
فائرنگ کے اس واقعے سے عارضی طور پر لانگ مارچ کا سفر تعطل کا شکار ہوا جس کے ایک ہفتے بعد ہی عمران خان نے پارٹی قائدین کو لانگ مارچ جاری رکھنے کی ہدایت کی، یہ مارچ 10 نومبر سے دوبارہ شروع ہوگیا اور پی ٹی آئی چیئرمین اپنی رہائش گاہ زمان پارک سے روزانہ مارچ کے شرکاء سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے رہے۔
اب بظاہر عمران خان کی نظر اہم تعیناتی کی بجائے انتخابات پر ہے، مگر ان کے سیاسی مخالفین کو ابھی بھی خدشہ ہے کہ 29 نومبر سے پہلے 26 نومبر کو عمران خان کا پاور شو ان کے سیاسی اہداف پر اثر انداز نہ ہوجائے۔
اسلام آباد کیپیٹل پولیس کا کہنا ہے کہ دارالحکومت کے داخلی و خارجی راستوں پر سیکیورٹی الرٹ کردی گئی ہے، کسی بھی شخص کو کوئی بھی سڑک کسی طرح سے بھی بلاک کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں اسلام آباد پولیس نے کہا کہ شہر داخلی و خارجی 10 راستوں پر متوقع امن عامہ کی صورتِ حال کے تحت باڈی کیمروں کے ساتھ پولیس اہلکار تعینات ہوں گے۔ باڈی کیمروں کی ریکارڈنگ سے غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث عناصر کی نشاندہی ہوسکے گی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ امن عامہ کی صورت حال کے دوران باڈی کیمروں کا استعمال اسلام آباد میں پہلی بار ہوگا، جدید ٹیکنالوجی کے حامل آلات سے لیس پولیس، ایف سی اور رینجرز کے جوان ڈیوٹی سر انجام دیں گے۔
اسلام آباد کیپٹل پولیس نے لانگ مارچ کے مظاہرین کو کسی بھی طرح کی سڑکیں بند کرنے یا ریاست مخالف نعرے لگانے کے حوالے سے بھی خبردار کیا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے ٹوئٹر پر جاری پیغام میں لکھا کہ ”کسی بھی طرح سے سڑکوں کو بلاک کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور سرکاری اور نجی املاک کو نقصان نہیں پہنچایا جانا چاہئے۔“ ایک ٹویٹ میں، قانون نافذ کرنے والے ادارے نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کورال سے روات تک پرامن ریلی کے لیے عدم اعتراض کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ، ”اسلام آباد کیپٹل پولیس ریلی کے لیے باقاعدہ ٹریفک پلان جاری کرے گی۔“
پولیس نے مظاہرین کو خبردار کیا کہ ریاست، مذہب، نظریہ پاکستان کے خلاف نعرے بازی اور تقاریر کی اجازت نہیں دی جائے گی، ریلی میں اسلحہ، لاٹھی اور ڈنڈے لے جانے پر کارروائی کی جائے گی۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ”شرائط کی خلاف ورزی پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔“
”ضلعی ضلعی انتظامیہ نے ریلی کے لئے باقاعدہ این او سی جاری کردیا۔ ریلی کو پرامن بنانےکےلئے ضلعی انتظامیہ نے 35 شرائط رکھی ہیں۔ صرف کورال چوک سے روات تک جانے کی اجازت دی گئی ہے۔“
اسلام آباد پولیس نے یہ بھی روشنی ڈالی کہ ریڈ زون اور دیگر علاقوں میں دفعہ 144 کا نفاذ جاری رہے گا۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران سے حقیقی آزاری مارچ کو چند ہفتے کے لئے موخر کرنے کا مطالبہ کردیا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ اس وقت عمران خان کے لانگ مارچ کا کوئی جمہوری مقصد نہیں ہے، انہوں نے غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے لئے لانگ مارچ کا ڈھونگ رچایا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اگر ترقی کرنی ہے تو سب کو اپنے دائرے میں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے مگر کچھ ایسے گروپس ہیں جن کا سیاسی کاروبار آئینی فیصلہ ہوجانے سے ختم ہوجاتا ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ خان صاحب اور ان جیسے سیاست دان سمجھتے ہیں ان کا سیاسی مستقبل ادارے کے متنازعہ کردار سے جڑا ہے، خان کی سیاست کی کہانی صرف کرکٹ سے وزیراعظم تک ہے، انہیں سلیکٹ کرنے کی سازش کو جمہوریت کے لیے برداشت کرنا پڑا جس کے اثرات سب کے سامنے ہیں۔
وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو چار سالوں میں نقصان پہنچایا گیا جس کا بوجھ عوام اُٹھا رہے ہیں، روس یوکرین جنگ، موسمیاتی تبدیلیوں اور کورونا سے نقصان سمجھ میں آتا ہے مگر ایک وزیراعظم کے اپنے فیصلے نے پاکستان کو اتنا نقصان پہنچایا کہ ہم ڈیفالٹ تک پہنچ گئے تھے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہمیں یہ دھمکی دی گئی تھی کہ انتخابات ہوں گے یا مارشل لاء ہوگا، عمران نے جان بوجھ کر ملک میں سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لئے عمران خان آرمی چیف کو مدتِ ملازمت میں تاحیات توسیع دینا چاہتے تھے تاہم پاکستان کی خوش قسمتی ہے اور جنرل باجوہ کا بھی شکریہ جنہوں نے اس پیشکش کو مسترد کیا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ عمران نے لانگ مارچ کے لیے یہ وقت کیوں چنا جب نیا آرمی چیف لگایا جا رہا ہے، سب جانتے ہیں ان کی مارچ کا مقصد کیا ہے، عمران خان سے درخواست ہے اس قسم کی سیاست سے گریز کرتے ہوئے اپنی حقیقی آزادی مارچ کو چند ہفتے کے لئے مؤخر کردیں۔
آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق سوال پر وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی قانونی طور پر وزیراعظم کی سوابدید ہے، لہٰذا پیپلز پارٹی وزیراعظم کے فیصلے کو سپورٹ کرے گی، البتہ اگر صدر مملکت عارف علوی نے اس ضمن میں کوئی غیر آئینی کام کیا تو انہیں نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔
سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ ہم سب نے 26 نومبر بروز ہفتے کو ایک بجے پنڈی پہنچنا ہے، ہمیں حقیقی آزادی کیلئے گھروں سے نکلنا ہے، لہٰذا 26 نومبر کو پوری قوم پنڈی پہنچے گی جہاں صاف و شفاف الیکشن کا مطالبہ کریں گے۔
روات میں پی ٹی آئی حقیقی آزادی مارچ کے شرکاء سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ حقیقی آزادی کی تحریک 7 ماہ پہلے شروع کی، پی ٹی آئی اپنےمؤقف سےقوم کو آگاہ کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 25 مئی کو جو ظلم ہوا وہ کبھی نہیں بھولوں گا، لوگوں کے اوپر تشدد کیا گیا اور بغیر وارنٹ کے ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، میرے اوپر 23 ایف آئی آر کاٹی گئیں جب کہ ڈرٹی ہیری نے اسلام آباد میں سوشل میڈیا کے لوگوں کو تشدد کیا، اس نے ہمارے ساتھ بلوچستان کے دہشتگردوں کی طرح سلوک کیا۔
عمران خان نے کہا کہ جنرل مشرف کے دور میں جیل میں گیا، مشرف دور میں ایسا ظلم نہیں دیکھا، مجھے ان لوگوں نے ایسا رکھا جیسے میں ملک کا غدار ہوں، لگتا ہے ہم پاکستان کے ہیں ہی نہیں۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ فوج ملک کو اکھٹا نہیں رکھتی بلکہ سیاسی جماعتیں ملک کو اکھٹا رکھتی ہیں، جلسوں میں جانے سے پہلے مجھے کئی بار چیف سیکرٹریز کی جانب سے خط موصول ہوئے کہ میری جان کو خطرہ ہے، البتہ میری ابھی بھی جان کو خطرہ ہے۔
تاہم عمران خان نے کہا کہ اس کے باوجود وہ راولپنڈی جائیں گے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ مان لیا اسٹیبلشمنٹ نے سازش نہیں کی لیکن انہوں نے ان لوگوں (پی ڈی ایم) کو روکا کیوں نہیں، باہر کی کوئی سازش اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک اندر سے اسے حمایت نہ ہو۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ چوروں کی غلامی سے بہتر ہے مر جائیں، چور اپنے بچوں کو حکمرانی کے لئے تیار کر رہے ہیں ان لوگوں کو صرف منی لانڈرنگ کا کام آتا ہے، مجھے بلاول بھٹو کا سیاسی مستقبل نظر نہیں آتا، وہ ڈھونڈتے رہیں گے کہ والد نے چوری کا پیسا کہاں کہاں چھپا کر رکھا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قومی کو حقیقی آزادی دلائے بغیر نہیں رکیں گے، ہم کسی سُپر پاور کی غلامی نہیں کریں گے، پاکستان کلمہ پر بنا تھا، ہمیں ایک اللہ کے سامنے جھکنا ہے، بے شک امریکا ناراض ہو لیکن ہمیں فیصلے خود کرنے ہوں گے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے نوجوان بیرون ملک جانے کے لئے تیار اس لئے رہتے ہیں کیونکہ وہاں پر انصاف کا قانون ہے، برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے ایک چھوٹا سا قانون توڑنے پر استعفیٰ دے دیا تھا، وہاں کی عدالتیں عوام کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ کھڑی کی کہانی پر ایک میڈیا ادارے نے ن لیگ اور ڈرٹی ہیری سے مل کر پروپیگنڈا کیا، افسوس سے کہنا پڑتا ہے مجھے پاکستان میں انصاف نہیں ملے گا، لہٰذا میں میڈیا گروپ پر دبئی، امریکا اور برطانیہ میں کیس کر رہا ہوں، اس کے اوپر حرجانے کا کیس ہوگا، میں برطانیہ میں پہلے بھی کیس لڑ چکا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ایسی کیا چیز ہوئی کہ چند مہینے بعد اسٹیبلشمنٹ سے ان لوگوں کی ڈیل ہوگئی اور یہ دوبارہ ملک پر مسلط ہوگئے، ایجنسیوں کے پاس ساری رپورٹس موجود ہوتی ہیں۔
تحریک انصاف چیئرمین نے کہا کہ 7 ماہ بعد اسٹیبلشمنٹ بتائے ان لوگوں نے اب تک کیا ہے، ان کی گورننس کا یہ حال ہے ملک میں 53 فیصد دہشتگردی میں اضافہ ہوا ہے، ان کو مسلط کرنے سے ملک کو کیا فائدہ ہوا ہے، اسی اسٹیبلشمنٹ نے ان لوگوں کو 90 کی دہائی میں دو بار نکالا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اسد عمر کا کہنا ہے کہ پیسہ چلاکر عوام کا لیڈر نکالا جائیگا تو عوام خاموش نہیں رہیں گے۔ عمران خان نےکہا نہ خود جھکوں گا نہ ہی جھکنےدوں گا۔
روات میں لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے رہنما پی ٹی آئی اسد عمر نے کہا کہ آپ کے کپتان نے امریکا کو ایبسلیوٹلی ناٹ کاجواب دیا، یہ سفر سازشوں کی وجہ سے شروع ہوا، ضمیروں کی منڈی لگی۔ یہ سمجھتے ہیں سازش سے عمران خان گھر چلا جائے گا۔ سمجھتے ہیں عمران خان گھرجائیں گے تو قوم خاموش ہوکر بیٹھ جائے گی۔
انہوں نے خطاب میں کہا کہ کیا وجہ ہے لوگ اتنی لمبی مسافت طے کرکے پنڈی آنے کےلیےتیار ہیں۔ ایک سازش جس میں لوگوں کے ایمان بکتے نظر آتے ہیں۔ یہ سمجھتے تھے کہ بیرونی آقاؤں کی غلامی کرتے رہے ہیں، ساری قوم تیار ہوجائے۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ یہاں آج تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہونے جارہا ہے۔ آج چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اہم اعلان کریں گے۔ پچھلے 10 دن سے پنجاب کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا آ رہا ہوں۔ لوگوں کا عمران خان پر اطمینان دیکھ کر آ رہا ہوں۔
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ آپ لوگوں کے لیے خوشخبری لے کرآ رہا ہوں، 10 اپریل کو لاکھوں لوگ عمران خان کے حق میں باہر نکلے۔
عمران خان پر حملے کے ملزم نوید کا عدالت سے ریمانڈ ملنے کے بعد وزیرآباد واقعے کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے اس سے تفتیش شروع کردی ہے ۔ جب کہ لانگ مارچ کے دوران کنٹینر کے اطراف تعینات اہلکاروں سے بھی پوچھ گچھ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ملزم نوید کو 10 روز تک بغیر ریمانڈ کے پولیس تحویل میں رکھا گیاتھا۔ جمعرات کو جب اسے پیش کیا گیا تو عدالت نے 12 روزہ ریمانڈ پر نوید کو پولیس کے حوالے کردیا۔
ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی نے تفتیش کا باضابطہ آغاز کرتے ہوئے ملزم نوید سے وقوعہ کے روز کی نقل و حرکت پوچھی۔ ملزم نے جے آئی ٹی کے روبرو وہ بیان دہرایا جو اس نے 3 نومبر کو گرفتاری کے فوراً بعد دیا تھا۔
تحقیقاتی ٹیم نے ملزم نوید سے حالات و واقعات پر سوالات کئے۔ اطلاعات کے مطابق ملزم کا کہنا تھا کہ وہ دو گھنٹے سے عمران خان پر حملے کرنے کے لیے موقع کا انتظار کر رہا تھا جب کہ حملے کے بعد اس نے دائیں جانب گلی سے فرار ہونا تھا۔ نوید کا دعویٰ تھا کہ اس نے اکیلے ہی حملے کی منصوبہ بندی کی۔
ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ واقعے کے محرکات جاننے کیلئے ملزم کا بار بار انٹرویو کیا جائے گا جب کہ لانگ مارچ سکیورٹی اور کنٹینر کے اطراف تعینات اہلکاروں سے بھی پوچھ گچھ ہوگی،دوسرے مرحلے میں پی ٹی آئی کارکن معظم کی ہلاکت پر تفتیش کی جائے گی۔
ملزم نوید کو چوہنگ میں سی ٹی ڈی حکام کی تحویل میں رکھا گیا ہے۔
یاد رہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان پر 3 نومبر کو وزیر آباد میں لانگ مارچ کے دوران قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا جس میں وہ زخمی ہو گئے تھے۔
تحریک انصاف کا کارکن معظم اس حملے میں جاں بحق ہوا تھا ابتدا میں خیال تھا کہ اسے نوید کی پستول سے چلنے والی گولی لگی لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ سے انکشاف ہوا کہ اسے دور سے گولی لگی جو معظم کے پستول کی نہیں تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ایک دعویٰ کرکے اپنی ہی سیاسی جماعت کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔
فواد چوہدری نے ہفتہ کو برازیل کی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں خاصی تعداد میں لوگ ایک شہر کے بیچوں بیچ کھلی جگہ پر جمع ہیں۔
یہ ویڈیو جان ہاپکنز یونیورسٹی کے پروفیسر اسٹیو ہینکی کے تصدیق شدہ ٹوئٹر ہینڈل سے پوسٹ کی گئی ہے اور اس کے ساتھ پروفیسر نے دعویٰ کیا ہے کہ ہزاروں برازیلین شہری صدر لولا ڈی سلو کی حالیہ انتخابی فتح کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔
فواد چوہدری نے ویڈیو ری ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہاکہ راولپنڈی میں انشا اللہ اس سے بھی بڑا انسانوں کا سمندر ہوگا اور لوگ امپورٹڈ حکومت کو گڈ بائے کہہ دیں گے۔
برازیل میں لولا ڈی سلوا کو 2018 میں کرپشن کے الزامات پر انتخابات سے باہر کردیا گیا تھا تاہم گذشتہ برس عدالتوں نے ان کی سزا اور نااہلیت ختم کردی اور اس سال لولا ڈی سلوا ایک بار پھر صدر بن گئے۔ اس پر ان کے مخالف بولسونارو کے حامی مظاہرہ کر رہے ہیں اور فوج سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ لولا ڈی سلوا کے خلاف کارروائی کرے۔
تاہم پروفیسر ہینکی نے جو ویڈیو شیئر کی وہ حکومت مخالف احتجاج کی نہیں بلکہ 7 ستمبر کو برازیل کے یوم آزادی کے موقع پر نکالی گئی ریلی کی ہے۔
پروفیسر اسٹیو ہینکی جنہیں پی ٹی آئی کے کئی رہنما فالو کرتے ہیں نے کہا تھاکہ یہ مظاہرہ برازیل کے یوم جمہوریہ پر ہوا جو 15 نومبر کو منایا جاتا ہے۔ یہ ویڈیو اور اس میں سے لی گئی تصاویر لولا ڈی سلوا کے کئی مخالفین نے بھی اس دعوے کے ساتھ شیئر کی ہیں کہ 30 لاکھ لوگ اس مظاہرے میں شریک ہوئے
بولسونارو کے حامی گذشتہ 20 روز سے حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور اس بنا پر پروفیسرہینکی کی ویڈیو کو فواد چوہدری سمیت کئی لوگوں نے ٹوئیٹ کیا تاہم [بیان الاقوامی خبر رساں اداروں نے فیکٹ چیک][1] کرکے بتایا کہ جن تصاویر اور ویڈیوز کو حکومت مخالف مظاہرہ قرار دیا جا رہا ہے وہ 7 ستمبر کو ہونے والے 200ویں جشن آزادی کے اجتماع کی ہیں۔
اسی اجتماع کی ایک اور ویڈیو رواں برس 11 ستمبر کو ٹک ٹاک پر بھی پوسٹ کی گئی تھی۔ اس وقت تک برازیل میں الیکشن نہیں ہوئے تھے اور صدر بولسونارو اقتدار میں تھے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق ویڈیو میں 200 ویں جشن آزادی کے پوسٹر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ستمبر میں یہ اجتماع بولسونارو کے ایما پر ہی ہوا تھا جس کے ذریعے اس وقت کے صدر اپنی طاقت کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔
ستمبر میں جب بولسونارو نے طاقت کا مظاہرہ کیا تو ان کے مخالفین نے دعویٰ کیا کہ وہ دارالحکومت برازیلا میں نیشنل کانگریس کی عمارت کے قریب مرکزی ایونیو کو بھرنے میں ناکام رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ 16 کلومیٹر طویل اور تقریباً 300 میٹر چوڑے اس مقام پردس لاکھ لوگ آسانی سے آسکتے ہیں جبکہ علاقے کو مکمل بھرا جائے تو یہاں 20 لاکھ افراد کی گنجائش ہے۔
فواد چوہدری کے دعوے کے بعد سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف لاکھوں افراد راولپنڈی میں جمع کر پائے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کو کورال چوک سے روات تک ریلی کی اجازت مل گئی ہے۔
انتظامیہ کی جانب سے 35 شرائط کے ساتھ این اوسی جاری کیا گیا ہے جبکہ اسلام آباد انتظامیہ نےعلی نوازاعوان کی درخواست پراجازت دی ہے۔
اسلام آباد سے تمام چھوٹی ریلیاں کورال چوک پرجمع ہوں گی جس کے بعد اسلام آباد ریجن کے شرکا روات میں آزادی لانگ مارچ کا حصہ بنیں گے۔
سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ ایک تعیناتی سب پہ بھاری ہے، آئندہ دس روز قوم اور ملک کے مقدر کا فیصلہ کریں گے۔
اپنے ٹوئٹر بیان شیخ رشید نے کہا کہ صحیح فیصلہ صحیح سمت لے جائے گا، غلط فیصلہ انتشار برپا کرسکتا ہے اور تباہ حال معیشت مزید سنگین ہوسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے صرف اپنے کیس ختم کروائے ہیں جو وقت آنے پر دوبارہ بحال ہوجائیں گے۔
لاہور میں وزیر قانون راجابشارت کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی لاءاینڈآرڈر کا اجلاس ہوا جس میں آزادی مارچ کی راولپنڈی آمد اور اسلام آباد میں داخلےکے معاملات پرغور کیا گیا۔
اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ وفاقی دارالحکومت کی حدود سے گزرنے کیلئےانتظامیہ سےبات کی جائے گی۔
وزیرقانون راجا بشارت نے کہا کہ عمران خان کےاعلان کے بعد اگلی حکمت عملی کاتعین کرینگے۔ یاد رہے کہ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ راولپنڈی پہنچنے کے لیے اعلان ہفتہ کو کریں گے۔
اجلاس کے دوران راجا بشارت نے کہاکہ ٹریفک مکمل بندنہ کی جائے،متبادل راستہ فراہم کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ آزادی مارچ کی لمحہ بہ لمحہ مانیٹرنگ کی جارہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کا حقیقی آزادی مارچ فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ گیا ہے جسے تحریک انصاف نے ’آخری مرحلہ‘ قرار دیا ہے۔ 28 اکتوبر کو لاہور سے شروع ہونے والا مارچ آج راولپنڈی کے نواحی علاقے روات میں پہنچ رہا ہے۔ جہاں سے ایک راستہ اسلام آباد کی طرف جاتا ہے اور دوسرا راولپنڈی کی جانب۔
پارٹی رہنماؤں کے مطابق عمران خان آج دوپہر دو بجے اہم اعلان کریں گے اور راولپنڈی جانے یا نہ جانے کا فیصلہ ہوگا۔
تحریک انصاف نے ابتدائی طور پر مارچ کے راستے کا جو نقشہ جاری کیا تھا اس کے مطابق روات سے مارچ کو راولپنڈی کی طرف جانا تھا اور پھر مری روڈ سے ہوتے ہوئے اسے فیض آباد پہنچنا تھا۔ تاہم روات سے اسلام آباد ایکسپریس وے بھی نکلتی ہے جو مسافروں کو راولپنڈی لے جائے بغیر سیدھا اسلام آباد پہنچاسکتی ہے۔
آزادی مارچ ایک ایسے وقت پر روات پہنچ رہا ہے جب نئے آرمی چیف کے تقرر کے معاملے پر سرگرمیاں جمعہ کی شب تیز ہوگئیں۔
عمران خان کی پارٹی نے کارکنوں کو راولپنڈی اسلام آباد پہنچنے کی کال دے رکھی ہے۔ روات سے مارچ راولپنڈی میں کب داخل ہو گا اس کا فیصلہ آج ہو جائے گا۔ عمران خان نے جمعہ کے روز گوجر خان میں مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ وہ راولپنڈی پہنچنے کی کال ہفتہ کے روز دیں گے۔
پنجاب حکومت کی ترجمان مسرت چیمہ نے ہفتہ کی صبح بتایا کہ عمران خان سہ پہر 4:15 بجے وڈیو لنک کے ذریعے روات میں مارچ سے خطاب کریں گے۔ بعد میں پی ٹی آئی کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اعلان کیا گیا کہ عمران خان دوپہر دو بجے خطاب کریں گے۔
اس بات کے امکانات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ مارچ فیض آباد پہنچ کر پراؤ ڈال دے گا اور دھرنا بھی دیا جا سکتا ہے۔
آج کی اہم بات یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کی قیادت میں آنے والے دونوں مارچ روات پہنچ رہے ہیں۔
تحریک انصاف رہنما فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ “ آخری مرحلہ آ گیا ہے تیار رہیں،عمران خان آج عوام کو راولپنڈی پہنچنے کی کال دیں گے۔
پنجاب حکومت کی ترجمان اور پی ٹی آئی رہنما مسرت جمشید چیمہ نے بتایا کہ کہ شاہ محمود اور اسدعمرکی قیادت میں قافلےآج روات پہنچیں گے،قافلوں کےاجتماع سےعمران خان تاریخی خطاب کریں گے۔
مسرت چیمہ کے مطابق عمران خان کا خطاب پاکستان کی آنےوالی سیاست کارخ تعین کرےگا،عمران خان اپنےخطاب میں اہم لائحہ عمل کااعلان کریں گے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ عوام پاکستان کوبچانےکیلئےاپنےلیڈرکی کال کاانتظارکررہےہیں۔
نئے آرمی چیف کا نام اب تک سامنے نہیں آیا تاہم جمعہ کی شام سے خبریں مل رہی ہیں اس حوالے سے معاملات طے پا گئے ہیں۔ صدر عارف علوی اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی ہے جس میں ڈار نے اہم پیغام عارف علوی کو پہنچایا ہے۔
اس کے بعد وزیراعظم ہاؤس میں اجلاسوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس کے دوران ایک ہیلی کاپٹر نے بھی وہاں لینڈنگ کی۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پیر کو سمری بھیج دی جائے گی اور نئے آرمی چیف کا نام بدھ تک سامنے آ جائے گا۔
حقیقی آزادی مارچ کا دوسرا مرحلہ 19 نومبر 2022 کو روات کے مقام پر اختتام پذیر ہوگیا، قافلوں نے روات میں پڑاؤ ڈال لیا۔
روات سے کچھ ہی کلومیٹر دور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی حدود کا آغاز ہوتا ہے۔
دوسرے مرحلے میں پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے جی ٹی روڈ، اسد عمر نے نارتھ پنجاب، پرویز خٹک نے پشاور، مراد سعید اور محمود خان نے مالاکنڈ ریجن سے مارچ کی قیادت جاری رکھی۔
چئیر مین پی ٹی آئی عمران خان نے روات میں شکراء سے خطاب کیا اور 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کی ہدایت کی۔
حقیقی آزادی مارچ جمعہ 18 نومبر 2022 کو گوجر خان پہنچا تھا اور ہفتہ کے روز اسے راولپنڈی کے نواحی علاقے روات پہنچنا تھا۔
قافلہ جمعرات 3 نومبر کو وزیرآباد میں عمران خان پر حملے کے بعد رک گیا تھا جس نے جمعرات کو یعنی ایک ہفتے بعد دوبارہ سفر شروع کیا۔
اس سے قبل مارچ گوجرنوالہ میں گوندلا والا اور چن دا قلعہ کے مقام پر رات میں رُکا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ لاہور سے براستہ جی ٹی روڈ اسلام آباد کی جانب جا رہا تھا تاہم اب اس کی منزل راولپنڈی ہے۔ اس سفر جس کا آغاز جمعہ 28 اکتوبر کو لبرٹی چوک سے ہوا تھا۔
پہلے دن لانگ مارچ لاہورمیں ہی رہا۔ لبرٹی چوک سے لانگ مارچ فیروز پور روڈ، اچھرہ، مزنگ، ایم او کالج، جنرل پوسٹ آفس چوک اور داتا دربار سے مارچ آزادی چوک پہنچا۔ یہاں پہنچنے کے بعد مارچ کا پہلا دن مکمل ہو گیا۔ رہنما گھروں کو چلے گئے۔
لانگ مارچ دوسرے روز مرید کے سے ہوتا ہوا کامونکی پہنچنا تھا۔ شام چار بجے کے قریب عمران خان نے امامیہ کالونی کے قریب خطاب کیا۔ اس کے بعد مارچ کو پہلے مرید کے تک لے جانے اور پھر فیروزوالا پرروکنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ہفتہ کو مارچ کو مریدکے میں روکنے کا فیصلہ تھا لیکن مرید سے پہلے ہی رچنا ٹاؤن میں پڑاؤ ڈال لیا گیا۔
قافلہ اتوار 30 اکتوبر کی شب مارچ کامونکی میں رک گیا تھا جہاں سے پیر کی صبح اس نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔
آزادی مارچ کو اسلام آباد پہنچانے میں تاخیر کی حکمت عملی کیا ہے
کامونکی میں عمران خان کے خطاب کے بعد مارچ وہاں سے روانہ ہوا اور ساڑھے چار بجے کے لگ بھگ ایمن آباد پہنچ گیا۔ یہاں پر پی ٹی آئی سربراہ نے مارچ سے خطاب کیا اور پھر چن دا قلعہ کے لیے روانہ ہوئے۔
اگلے تین دن گوجرانولہ میں گزارنے کے بعد مارچ آگے بڑھا تھا جب عمران خان پر حملہ ہوا حملہ ہوا۔
مارچ کے راستے میں ڈسکہ، سیالکوٹ اور سمبڑیال بھی تھے تاہم حملے سے پہلے ہی یہ روٹ منسوخ کردیا گیا۔ پارٹی قیادت نے مارچ کو جی ٹی روڈ پر ہی رکھنے کا فیصلہ کیا تھا ۔
مارچ وزیر آباد سے ہوتا ہوا گجرات پہنچا ۔ جس کے بعد لانگ مارچ لالہ موسیٰ کھاریاں سے جہلم آیا۔ جہلم اور دینہ میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ جہلم پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کا آبائی علاقہ ہے۔
لانگ مارچ گوجر خان سے راولپنڈی میں داخل ہوگا جبکہ ملک بھر سے قافلے بھی اسی دن راولپنڈی پہنچیں گے۔ شروع میں جاری کیے گئے شیڈول کے مطابق مارچ نے 4 نومبر کو راولپنڈی پہنچنا تھا تاہم اب اس میں دو ہفتے سے زائد کی تاخیر ہوچکی ہے۔
مارچ کے راولپنڈی پہنچنے کی تاریخ 26 نومبر دی گئی ہے۔
فواد چوہدری نے گذستہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ عمران خان تیسرے ہفتے راولپنڈی پہنچ کر مارچ کی قیادت کریں گے۔ تاہم اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شاید عمران خان سیکورٹی وجوہات کی بنا پر اسٹیج پر نہ آئیں۔