صوابی کےتراکئی خاندان کے درمیان کیا چپقلش ہے
تراکئی خیبر پختونخواہ کے ضلع صوابی کے ممتاز خاندانوں میں سے ہیں۔ 2017 کی مردم شماری کےمطابق اس علاقے کے ذیلی ضلع رزارکی آبادی تقریباً 6 لاکھ ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ 10 لاکھ سے زائد ہے، یہی رزار تراکئی کا گڑھ مانا جاتا ہے۔
انجینئر عثمان خان تراکئی اس علاقے سے مسلسل 3 باررکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں جبکہ ان کے کزن لیاقت خان تراکئی 2015 سے سینیٹ کے رکن ہیں۔ لیاقت کے بھائی محمد علی تراکئی اوربیٹا شہرام تراکئی ایلیمینٹری اورثانوی تعلیم کے وزیر ہیں، گزشتہ دوانتخابات میں صوبائی نشستیں جیت کر دونوں صوبائی کابینہ کے رکن منتخب ہوئے۔
لیاقت خان کو تراکئی قبیلے میں سب سے طاقتور سمجھا جاتا ہے، اورخاندان کی ملکیت میں باغات اور فیکٹریوں کی وجہ سے انہیں کبھی خیبر پختونخواہ کا ’ٹوبیکو کنگ (تمباکو کا بادشاہ)‘ کہا جاتا تھا۔
تراکئی پہلی بار 2005 میں صوابی کے سیاسی منظر نامے میں داخل ہوئے، انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے دورحکومت میں ضلعی ناظم کے انتخاب میں عوامی نیشنل پارٹی کو شکست دی۔ سال 2010 میں اپنی پارٹی عوامی جمہوری اتحاد پاکستان تشکیل دی جو 2015 میں پاکستان تحریک انصاف میں ضم ہوگئی۔
شکایت کیا تھی
منگل کو بلند اقبال تراکئی نے سوشل میڈیا پرایک ویڈیو اپ لوڈ کی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے ان کی رہائش گاہ اور حجرے پر چھاپہ مارا اوران کے ساتھ بدتمیزی کی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ سب ان کے عزیز شہرام تراکئی کے کہنے پر کیا گیا اور اس سب مین پی ٹی آئی کے رہنما پرویز خٹک اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر بھی ملوث تھے۔
بِلند عثمان خان تراکئی کے بھائی ہیں، اور اس لحاظ سے وہ رشتے میں لیاقت تراکئی کے کزن اور شہرام تراکئی کے چچا ہوئے۔
ویڈیو میں بِلند کا کہنا ہے کہ ان پرحملہ کیا گیا اوران کے کپڑے پھاڑ دیے گئے جبکہ گولیاں بھی چلائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ، ”یہ ہمارے خاندان اور قبیلے سے متعلق ایک ذاتی مسئلہ تھا، لیکن اسد قیصر اور پرویز خٹک نے اسے بڑھاوا دیا۔“
بِلند اقبال نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس چھاپے میں صوابی اور مردان کی پولیس ملوث تھی۔
رشتہ داروں اور قبیلے کے افراد کے سامنے اپنے ساتھ بدتمیزی کیے جانے کا دعویٰ کرنے والے بِلند اقبال نے کہا کہ، “”ہم عمران خان کی حمایت میں احتجاجی مارچ میں شامل ہونے کے لیے نکل رہے تھے، جب چھاپہ مارا گیا۔ میرا ایک بھائی جو ایم این اے ہے، وہ بھی وہاں موجود تھا“ ۔
بلند نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کی قیادت بشمول شہرام تراکئی، پرویز خٹک اوراسد قیصر ان کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرانے کی کوشش کر رہی ہے اور انہیں او ان کے خاندان کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ، ”یہ لوگ عمران خان کے وفادار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن حقیقت میں موقع پرست ہیں“۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بِلند اور شہرام کے درمیان جھگڑا ہوا ہو۔
گزشتہ ماہ شہرام تراکئی کو ایک اوروزیر کے ساتھ صوابی میں ایک کالج کا افتتاح کرنا تھا۔ اس موقع پر بلند، ان کے بھائی، ایم این اے عثمان تراکئی اور دیگربھی عمارت کے افتتاح پردیکھے گئے۔
بِلند اوران کے حامیوں کو روکنے کے لیے پولیس کو مداخلت کرنا پڑی، ہنگامہ آرائی کے دوران بِلند بے ہوش ہوگئے۔ کچھ رپورٹس میں بتایا گیا کہ بِلند کے ساتھ پولیس نے بدتمیزی کی، بعد میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ سب شہرام کے کہنے پر کیا گیا تھا۔
اس جھگڑے کے بعد خیبرپختونخوا سے پارٹی صدر پرویزخٹک نے بِلند کی بنیادی رکنیت معطل کرتے ہوئے اپارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر انہیں اظہاروجوہ کا نوٹس جاری کیا۔
ایم این اے عثمان تراکئی نے آج ڈیجیٹل سے بات چیت میں دعویٰ کیا کہ کالج کی تعمیرکے لیے ’اِدھر ُدھر بھاگ دوڑ‘ انہوں نے کی لیکن شہرام نے سارا کریڈٹ اپنے سرلے لیا، انہوں نے کہا کہ“اسکول کی تختی پرمیرا نام تک نہیں تھا۔“۔
بھائی کی رہائش گاہ پر چھاپے سے متعلق بات کرتے پوئے عثمان نے انہی کے دعوے کو دہرایا، اورمزید کہا کہ مردان سے پولیس کاملوث ہونا جہاں سے اسد قیصررکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے ، اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس میں ملوث تھے
انہوں نے کہا کہ پولیس نے بِلند کوگرفتار کرنے کی کوشش کی، نتیجے میں ہاتھا پائی اور ہوائی فائرنگ ہوئی جس کے بعد پولیس نے اسے حراست میں لیے بغیر ہی چھوڑدینا بہترسمجھا۔
صوابی پولیس نے آج ڈیجیٹل کو بتایا کہ بلند کی رہائش گاہ پر پولیس کی مداخلت ان کے دھڑے کو صوابی کے احتجاجی مقام کی طرف مارچ کرنے سے روکنے کے لیے تھی کیونکہ اس کے نتیجے میں شہرام کے حامیوں کے ساتھ تصادم ہو سکتا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مختلف علاقوں سے قافلے جن میں ایک کی قیادت رویز خٹک اور دوسرے کی اسد قیصر کررہے تھے، بھی صوابی کے احتجاجی مقام کی طرف روانہ ہوئے تھے۔
پولیس کے ایک ترجمان کے مطابق، ”ہم صرف ایسی صورت حال سے بچنا چاہتے تھے جو قابو سے باہرہوجائے“۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک کوئی شکایت درج نہیں کی گئی ہے۔
آج ڈیجیٹل نے بلند کی رہائش گاہ پر چھاپے میں ملوث افسران سے بھی رابطہ کیا لیکن انہوں نے سوالات کا جواب دینے سے انکارکردیا۔
میئرکے انتخاب میں شکست
چند ماہ قبل ایک اور واقعہ نے بھی تراکئی قبیلے میں دراڑیں پڑنے کا اشارہ دیا تھا، جو مارچ 2022 میں تحصیل رزار میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں تحصیل میں میئر کے عہدے پر ہوا۔
خاندان اور علاقے کے جاننے والوں کا کہنا ہے کہ شہرام کی خواہش تھی کہ ان کا بھائی رزار کی میئر شپ کے لیے کھڑا ہو جبکہ عثمان اپنے بھائی بِلند کودیکھنا چاہتے تھے، آخرکارفیصلہ بِلند کے حق میں ہوا لیکن شہرام تراکئی نے سمجھداری سے بلند کی حمایت واپس لے لی جس کے نتیجے میں اے این پی کے امیدوار کے مقابلے میں انہیں شکست ہوئی۔
آئندہ عام انتخابات کے لیے ٹکٹ کی خواہش
ایسا لگتا ہے کہ سب سے زیادہ مسئلہ آئندہ عام انتخابات کے لیے ٹکٹوں کے اجراء کا ہے۔
عثمان خان تراکئی ایم این اے کا ٹکٹ اپنے یا اپنے بھائی بِلند کے لیے چاہتے ہیں جبکہ شہرام کی خواہش ہے کہ ٹکٹ انہیں دیا جائے، ساتھ ہی وکہ ں۔ اپنے چچا محمد علی ترکئی اور بھائی فیصل تراکئی کیلئے ایم پی اے کا ٹکٹ چاہتے ہیں۔
الزامات کی بوچھاڑ
آج ڈیجیٹل کو شہرام تراکئی سے رابطہ کرنے میں کامیابی نہیں ہوئی لیکن ان کے اسسٹنٹ رمضان نے بات کرتے ہوئے بِلند کے اس دعوے کی تردید کی کہ چھاپہ دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ تھا۔
تفصیل بتائے بغیررمضان نے کہا کہ یہ ، ”یہ لاء اینڈ آرڈرکی صورتحال تھی“،مزید استفسار کرنے پرانہوں نے بِلند کیخلاف ممنوعہ اشیاء کی فروخت سے لے کر ’غیرازدواجی جنسی تعلقات‘ میں ملوث ہونے تک کے کچھ عجیب وغریب الزامات عائد کیے۔
انہوں نے کہا کہ شہرام تراکئی نے سب کے سامنے بِلند سے لاتعلقی کا اظہارکیا، اگرچہ خاندان کو اپنے بھائی ایم این اے عثمان ترکئی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ایک اور شخص نے جو تراکئی خاندان کے قریب رہ کرکام کرتا ہے، شناخت ظاہرنہ کرنے کی خواہش پربتایا کہ انتخابات اور ٹکٹ کے معاملے پر ہونے والے مسائل میں کچھ سچائی ہوسکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یاقت خان تراکئی نے ماضی میں عثمان کی انتخابی مہم کی مالی معاونت کی تھی۔ ”اب مالی معاملات بیٹوں کے حوالے کردیے گئے ہیں، جو اس مہم کوچلانے کیلئے تیارنہیں ہیں“۔
ایک اور دعویٰ جس کی تصدیق نہیں ہوئی یہ تھا کہ ، کہ بِلند تراکائیوں کے پے رول پرتھا۔ ”لیاقت بلند کو ایک گاڑی، گن مین اورڈرائیور فراہم کرنے کے ساتھ 2 لاکھ روپے ماہانہ ادا کررہا تھا، جسے شہرام نے بند کرنے کا فیصلہ کیا، بِلند رقم اور مراعات واپس چاہتا ہے“۔
آج ڈیجیٹل نے اس حوالے سے بِلند اقبال سے جواب جاننے کی کوشش کی لیکن ان کا موبائل فون نمبر بند تھا۔
Comments are closed on this story.