دیامرکا گرلز اسکول: آگ کے شعلوں سے تعلیم کا سُورج پھر طلوع
ایک ہفتہ قبل دیامر کے گرلزسیکنڈری اسکول کو آگ لگنے والے واقعے کے بعد دیرل کی کمیونٹی کو لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول کی تزئین و آرائش میں صرف پانچ دن لگے۔
”یہ ہمارے لیے خوشی اوراعتماد کا لمحہ ہے کیونکہ ہم نے نظام درہم برہم نہیں ہونے دیا“۔
گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری محی الدین احمد وانی نے آج نیوز کو بتایا کہ بچے اسکول میں واپس آنے پر بہت زیادہ پرجوش تھے اور ان کی آنکھوں میں امید تھی۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم نہ صرف حالات کو معمول پرلائے بلکہ ہم نے اسے بہتربنایا ہے“۔
اس موقع کو یادگار بنانے کے لیے دو خواتین پارلیمنٹیرینز نے منگل کو سمیگل میں گرلز مڈل سکول کا افتتاح کیا، اس موقع پرطلباء کی مسکراہٹ دیدنی تھی، تقریب میں کمشنر دیامر، چلاس کے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر دریل نے شرکت کی۔ اسکول پیر کو کھولا جانا تھا لیکن موسم کی وجہ سے تقریب میں تاخیر ہوئی۔
اسکول میں 60 سے زائد طالبات زیرتعلیم ہیں، اب ان کے پاس آئی ٹی لیب اور لائبریری ہے۔ اسکول راہداریاں بانیان پاکستان کے پوسٹرز سے سجی ہیں، ڈھکی ہوئی ہے۔ شمال کی سمت واقع ہونے کے باعث اسکول کی تعمیرمیں لکڑی اور چادریں استعمال کی گئی ہیں تا کہ یہ سردیوں میں گرم رہے۔
چیف سیکرٹری کے مطابق ”یہ پہلے سے کہیں بہتر اسکول ہے، اب اسے گلگت بلتستان کے چند اچھے اسکولوں میں شمار کیا جائے گا،اسکول کیی دوبارہ تعمیرمیں چارسے پانچ روز لگے۔“
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ خطے میں لڑکیوں کی شرح خواندگی صرف 7 فیصد ہے، اس حملے کے بعد اسکول میں طلباء کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
چیف سیکرٹری کا خیال تھا کہ اگرآگ لگانے جیسے واقعات سے کارروائیوں سے تعلیم کی حوصلہ شکنی ہوتی تو طلباء کی تعداد میں کمی آتی، جبکہ تعمیر نو کی کوششوں کی وجہ سے پچھلے چار دنوں میں اس میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
مزید برآں، ماضی میں بچوں کو کھانا مہیا کیے جانے کی وجہ سے بھی بہت سے اسکولوں میں شرح اندراج میں تین گنا اضافہ ہوا، حکومت نے اسے 30 سے بڑھا کر 50 اسکول تک کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
ایک کپ چائے
وانی نے بتایا، ”اسکول کی بلڈنگ کی بحالی کے دوران ایک بچی تعمیر کا معیار دیکھ کر اتنی خوش ہوئی کہ اپنے گھر سے ہرمزدور اور وہاں کام کرنے والےدیگرافراد کے لیے چائے بنا کر لائی اور کہنے لگی کہ آپ نے میرے لیے اسکول بنایا، یہ میری طرف سے آپ کے لیے تحفہ ہے“ ۔
انہوں نےکہا کہ ماضی کے حملوں کے برعکس 8 نومبر کو اسکول میں آتشزدگی کے اس واقعے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ماضی میں اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے والے چند لوگ بھی وہ بھی تعمیر نو کی کوششوں میں شامل ہوئے اور یہ سب سے خوش آئند بات ہے،لڑکیوں کے ٹرن آؤٹ نے شرپسندوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ ، ”ہم علم حاصل کریں گے اور اس بنیادی حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے“۔
ہم پڑھنا چاہتے ہیں جو ممکن ہے
پرائمری کلاس کی طالبہ سرینا نے اپنی مادری زبان شینا میں کہا، “ ”ہمارے سکول کو کیوں جلایا گیا؟ ہمارا سکول کس نے جلایا؟ ہم پڑھنا چاہتے ہیں“، دوسرے ہم جماعت اسے آج نیوز کے لیے انٹرویو دیتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
سرینا نے کہا کہ ،”ہم پڑھنا چاہتے ہیں ، موسم چاہے گرما ہو یا سردی یا برفباری، ہم تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر بنیں گے، ٹیچر بنیں گے اور ملازمت حاصل کریں گے۔“
اسکول کے تحفظ کی کمیٹیاں
ایسے حملوں کو روکنے کے لیے انتظامیہ نے کمیونٹی کے ساتھ مل کر 250 ارکان پرمشتمل ’اسکول پروٹیکشن کمیٹیاں‘ تشکیل دی ہیں۔ ان کمیٹیوں میں کمیونٹی لیڈرز، انتظامیہ کے نمائندے اور لیویزاہلکارشامل ہوں گےجنہیں علاقے میں لڑکیوں کے اسکول کے ارد گرد حفاظت اورپٹرولنگ کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔
محی الدین احمد وانی نے کہا کہ ، ”مقامی کمیونٹی کی مدد سے تحفظ میں اضافہ ہوا ہے، ، گلگت بلتستان کے سکاؤٹس علاقے میں گشت بھی کریں گے“۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اسکول کو نذر آتش کرنے والے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکےتحقیقات کا آغاز کردیا ہے، اس حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دی گئی ہے۔
گلگت بلتستان میں محکمہ تعلیم کی پارلیمانی سیکرٹری ثریا زمان نے اسکول کے افتتاح کے موقع پر تزئین و آرائش میں شامل لوگوں کو مبارکباد دی۔
انہوں نے کہا کہ ”یہ ایک ناممکن کام تھا، اسکول نذرآتش کرنے کے بعد کچھ نہیں بچا تھا، آپ نے 24 گھنٹے کام کیا اوراس کی تزئین و آرائش کی، یہ اسکول بہت خوبصورت ہے“۔
انہوں نے اس بار حملے پرمقامی کمیونٹی کے ردعمل کو سراہتے ہوئے کہا کہ 2018 میں 12 اسکولوں کا اسی طریقے سے صفایا گیا تھا توکسی نے مذمت نہیں کی تھی۔ اس بار لوگوں نے مذمت کی، آگے آئے اور خلاف احتجاج کیا، میں نوجوانوں کی شکر گزار ہوں۔ بارہ اسکولوں کو بحال کیا گیا ہے لیکن وہ فعال نہیں ہیں۔
رکن پارلیمنٹ نے اسکول کی تعمیر نو کو ایک ”بڑا لمحہ“ قرار دیا کیونکہ سخت موسم کے باوجود لوگوں نے کام جاری رکھا۔
’ہمارے لیے بہت اچھا لمحہ‘
اسکول کی تعمیر نوکے ایک سرگرم کارکن حفیظ اللہ چلاسی نے کہا کہ یہ ان کے اور دیگرسب کے لیے بہت اچھا لمحہ ہے جو خطے میں خواتین کی تعلیم کی حمایت کرتے ہیں۔
حفیظ اللہ چلاسی نے 8 نومبر کے واقعے کو علاقے کی خواتین اور پوری نسل کے مستقبل پر حملہ قراردیتے ہوئے کہا کہ ،”کمیونٹی دہشت گردوں اور شرپسندوں کے خلاف کھڑی ہوئی ہے، جنہوں نے ہمارے اسکولوں کو مسمار کیا ۔ضلع دیامر اور گلگت بلتستان کے نوجوانوں نے دہشت گردی کی سرگرمیوں کے خلاف احتجاج کیا۔“
انہوں نے کہا کہ کمیونٹی خواتین کے لیے تعلیم کی مکمل حمایت کرتی ہے۔
Comments are closed on this story.