Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

’قدرت کا نظام‘

آج کا شکاری کل کا شکار ہے
شائع 10 نومبر 2022 05:55pm
تصویر بزریعہ نیٹ جیو/ڈیوڈ بکلو
تصویر بزریعہ نیٹ جیو/ڈیوڈ بکلو

بچپن میں جب اسکول بھی نہیں جاتے تھے شاید تب ہی سے قدرت کے نظام کے بارے میں آگاہ تھے۔

جب بارشوں کے بعد چیونٹیوں کو مردہ پتنگے کو اپنے بل کی جانب لے جاتے دیکھ کر حیران ہوتے تو ہمارے نانا نے سمجھایا کہ یہی ’قدرت کا نظام‘ ہے، آج کا شکاری کل کا شکار ہے۔

جب تھوڑے بڑے ہوئے اور شرارت کے طور پر دوستوں کو گرانے کے لگائے گۓ جال میں خود الجھ کے گرے تو اس کا اصل مطلب پہلی مرتبہ سمجھ آیا، وہ الگ بات کہ سدھرے ہم پھر بھی نہیں۔

حال ہی میں قدرت کے نظام کا ایک نیا مطلب پاکستان ٹیم کے ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق نے تب سمجھایا جب پاکستان انگلینڈ کے ہاتھوں ہوم گراؤنڈ پر ہار گئی۔

اور جب پاکستان ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں ابتدائی میچز ہارنے کے باوجود سیمی فائنل تک پہنچ گئی تو قدرت کے نظام پر ہمارا یقین مزید پختہ ہو گیا۔

جب اس نظام کے بارے میں مزید غور کیا تو ایک جنگل اور اس پر حکمرانی کرنے و لے لگڑبھگوں کہانی یاد آگئی۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ مہذب دنیا سے دور ایک جنگل تھا۔ کہنے کو تو وہاں بھی دوسرے جنگلوں کی طرح شیر حکمرانی کرتے تھے مگر درحقیقت راج لگڑبھگوں کا ایک غول کرتا تھا۔

دو چیزیں تھیں جو ان کے راج کو دوام بخشتی تھیں، پہلی کہ لگڑبھگوں میں کمال کا ایکا تھا، دوسرا یہ کہ ان کو جنگل کہ تمام جانوروں کے راز معلوم تھے جس کی وجہ سے کوئی ان کے خلاف جانے کی سوچتا بھی نہ تھا۔ ان کو لگتا کہ اگر لگڑبھگوں نے راز افشاں کر دئے تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے ۔

اور اگر کبھی کوئی سر پھرا جانور ان کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کرتا، تو تمام لگڑ بھگے مل کر اس کی وہ حالت کرتے کہ پھر کسی کی ہمت نہ ہوتی۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ شیر بھی ان کے خلاف کچھ نہ کر پاتے۔

ایسے میں ایک دن تیندوے نے شیر کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ اس کا نعرہ تھا کہ شیر چور ہے اور اس نے جنگل کو بیچ کھایا ہے۔

تیندوے نے دوسرے جانوروں کو بھر کر ان سے وعدہ کیا کہ ایک بار وہ حکومت میں آجائے تو راوی چین ہی چین لکھے گا۔

مگر جانور شاید یہ بھول گئے کہ راوی اکثر مہابھارت کے کورووبادشاہ دھرتا راشترا کی طرح ہوتے ہیں، جن کو کبھی کچھ نہیں دکھتا۔

چونکہ تیندوے کو لگڑبھگوں کی حمایت حاصل تھی تو چند ہی دنوں میں وہ شیر اور اس کے حواریوں کو ہٹا کر خود باشاہ بننے میں کامیاب ہو گیا۔

حکمران بننے کے اگلے ہی دن سے تیندوے نے اپنے رنگ دکھانے شروع کر دیئے۔ لگڑبھگوں کا عمل دخل حکومتی معاملات میں تو پہلے بھی تھا مگر تیندوے کے راج میں تو ان کو کھلی چھوٹ مل گئی تھی۔ جب چاہا کسی کا شکار چھین لیا، جب دل کیا کسی بکری کے میمنے کو اٹھا کر لے گئے۔

اگر کوئی بھولا بھٹکا شکایت لے کر بادشاہ سلامت کے سامنے پہنچ بھی جائے تو اس کہ ڈانٹ ڈپٹ کے سوا کچھ حاصل نہ ہوتا کہ پوری سلطنت میں لگڑبھگوں سے زیادہ نیک کوئی نہیں۔

جب شیرنی نے الزام لگایا کہ لگڑبھگوں نے اس کی بے حرمتی کی ہے تو تیندوے اور اس کے حواریوں نے اس کو جھوٹی اور مکار قرار دیا۔

وقت گزرتا گیا اور تیندوے اور لگڑبھگوں کی نا انصافیوں کی فہرست طویل ہوتی گئی۔

اور ایک دن وہ آیا جس کا سب کو پتہ تھا ، تیندوے اور لگڑبھگوں کے درمیان اختیارات کو لے کر دراڑ آہی گئی اور رفتہ رفتہ وہ جنگ میں بدل گئی۔

لفظوں کی گولہ باری اس حد تک پہنچ گئی کہ لگڑبھگوں نے تیندوے اوراس کے حواریوں کے رازوں کا پرچار کھلے عام کرنے لگے۔

ایسے حالات میں جب تیندوے نے شور کیا تو اس کو سننے کو ملا کہ یہی ’قدرت کا نظام‘ ہے۔

پاکستان

regime change