جب پیدل چلنے والے جسٹس فائزعیسی بھی ٹریفک میں پھنس گئے
جہاں پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے باعث مختلف راستوں کی بندش سے اسلام آباد راولپنڈی کے شہری ان دنوں خاصی مشکلات سے دوچارہیں ، وہیں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کوصدر مملکت کے پروٹو کول کے باعث کچھ اسی قسم کی صورتحال کاسامنا کرنا پڑا۔
گزشتہ روز جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی ویڈیو سوشل میڈیا پروائرل دیکھی گئی جس میں راستوں کی بندش پر تھوڑا جھنجھلائے ہوئے نظرآئے، اس ویڈیو کو شیئرکرنے والے صحافی مطیع اللہ جان نے طنزیہ ٹویٹ میں لکھا کہ ، ”پاکستان میں جوڈیشل اکیڈمیز کوعدالت عظمیٰ کے ججزکو پُرہجوم بازاروں اورٹریفک جام سے گزرنے کی تربیت دینی چاہیے“۔
عدالتی رپورٹنگ کیلئے شہرت رکھنے والے مطیع اللہ نے اپنی بِیٹ کے ساتھیوں کوخبردارکرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ، ”کورٹ رپورٹرزکو اکتوبر 2023 میں اب تک کے سب سے بڑے چیلنج کے لیے خود کو تیارکرنا چاہیے“۔
صحافی نے اکتوبر2023 کاحوالہ اس لیے دیا گیا کیونکہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ سنیارٹی کے اعتبار سے آئندہ سال اسی ماہ میں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پرفائزہوجائیں گے۔
ویڈیو اور اس ٹویٹ کو بھی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے خاصی توجہ حاصل ہوئی جس کے بعد جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی جانب سے وضاحت سامنے آئی۔
انہوں نے 2 صفحات پرمبنی بیان میں واضح کیا کہ ان کی ویڈیو بغیراجازت بنائی گئی تھی جس پربعدازاں مفروضے قائم کرتے ہوئے مختلف تشریحات کی گئیں۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے مطابق ، نقل وحرکت کی آزادی ہرشہری کا بنیادی حق ہے اورانہوں نے کبھی کسی کو یہ باورنہیں کرایا کہ وہ عدالت عظمیٰ کے جج ہیں، عدالت آنے جانے کے دوران ان کے ساتھ کوئی باوردی سپاہی نہیں ہوتا نہ وہ عدالتی لباس میں ہوتے ہیں لیکن کسی پاکستانی شہری کی طرح کام پرسہولت سے پہنچنا اور اسی طرح گھرواپس جانا ان کا بھی بنیادی حق ہے۔
ویڈیوکے پس منظرکی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کل صبح سپریم کورٹ جاتے ہوئے تمام ٹریفک روک دی گئی تھی، دریافت کرنے پرعلم ہواکہ ایسا صدر مملکت کے پروٹوکول کے باعث کیا گیا ہے۔ سیکڑوں گاڑیوں میں ہزاروں افراد کے اپنے اپنے دفاترم، اسکول، اسپتال یا دیگرضروری کاموں کیلئے پہنچنے میں ایسی رکاوٹ پر افسوس کا اظہار کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا، “ نہایت افسوس ہوا کہ ایسا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہورہا ہے جس کے آئین میں سب سے پہلے اللہ کی حکمرانی کا اقرارکیا جاتا ہے اور جس کا مقصدِوجود بانی پاکستان نے یوں بیان کیا تھا:’ ہماری اپنی ریاست ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جس میں ہم آزادلوگوں کی طرح جی سکیں اور سانس لے سکیں ۔۔۔ اور جہاں اسلامی سماجی عدل کے اصولوں پرآزادی سے عمل ہو“۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے مطابق وہ 10 گھنٹے کام کرنے کے بعد حسب معمول پیدل اپنی رہائشگاہ جارہے تھے جب انہوں نے کچھ درجن سرکاری ملازمین کے احتجاج کے باعث شاہراہ دستورکی دائیں جانب کی سڑک بند دیکھی جبکہ بائیں جانب کی سڑک کو دوطرفہ بنادیا گیا تھا جس پر اکثریت میں سرکاری گاڑیاں پارک کی گئی تھیں حالانکہ پیلی لکیروں پر پارکنگ ممنوع ہے۔انہوں نےوہاں موجود ڈی آئی جی آپریشنز اور ڈپٹی کمشنرسے بطورشہری پوچھا کہ اپنی اور دوسروں کی گاڑیوں کو غیرقانونی طور پرکیوں پارک کیا ہے کہ جس سے عوام کو نقل وحرکت میں مزید دشواری ہورہی ہے۔
انہوں نے آئین کی دفعات اور شاہراہ اورسڑکوں کی بندش سے شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی پرسپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پرمتعلقہ دفعات کا نفاذ ضروری ہوجاتا ہے۔ دوسروں کے بنیادی حقوق متاثرکرکےاجتماع کاحق ، انجمن سازی کا حق اور اظہار کی آزادی کا حق استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق، “ وہ مظاہرین جو لوگوں کے لیے سڑکوں کے استعمال کرنے کے حق میں رکاوٹ ڈالیں یااملاک کو نقصان پہنچائیں، ان کیخلاف قانون کے تحت کارروائی اور انہیں جواب دہ ٹھہرانا لازمی ہے“۔
اسلامی تاریخ اور سیرت نبویؐ سے منقول قصہ لکھنے والے جسٹس قاضی نے اس امرپرافسوس کااظہار کیا کہ رسول اکرمؐ کی سنت پرآج غیرمسلم ممالک میں توعمل کیا جاتا ہے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس پرعمل نہیں ہوتا اور بےپناہ خصوصی پروٹوکول دیا جاتا ہے جس میں زیادہ ایندھن جلانے والی بکتربند گاڑیوں کے علاوہ اسلحہ بردارمحافظوں کا قافلہ بھی ہوتا ہے لیکن پھربھی عوام کو دوررکھنے کیلئے روٹ لگادیا جاتا ہے جس سے شہریوں کو بہت زیادہ تکالیف اٹھانی پڑتی ہے۔
اپنی تحریرکے آخری پیراگراف میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے مزید واضح کیا کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ ریاست کی جانب سے ان پراحسان نہیں، انہوں نے لکھا، “ آخرشہریوں کے خون پسینےکی کمائی ہی سے حاصل ہونے والی ٹیکس کی رقم سے یہ ملک چلتا ہے اور آئینی عہدے داروں ، سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی دی جاتی ہیں“۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی ویڈیوشیئرکرنے والے مطیع اللہ جان نے ان کی ویڈیو کے بعد اس تحریرکوبھی شیئرکیا۔
مطیع اللہ جان نے ردعمل میں اسے پیدل شہریوں کے حقوق پرمدلل فیصلہ مانتے ہوئے خواہش ظاہرکی کہ، “ یہ تحریر PLD میں شائع ہونا چاہئیے کیونکہ معزز جج ہرروز پیدل سپریم کورٹ آتے ہیں اور آئندہ سال اکتوبر میں ان کے چیف جسٹس بننے تک ایسے مزید واقعات ہوں گے،انکی یہ تحریرمستقل/ مصدقہ موقف کے طور بار بار شائع کی جاسکے گی“۔
Comments are closed on this story.