ارشد شریف قتل: چوری شدہ گاڑی کے مالک کے اہم انکشافات
ارشد شریف قتل کیس کینیائی پولیس کی جانب سے دئیے گئے بیان میں مذکورہ چوری شدہ گاڑی کے مالک نے کئی اہم انکشافات کئے ہیں۔
گاڑی کے مالک ڈگلس وائنینا کاماؤ نے فیکٹ فوکس سے گفتگو میں کہا کہ میں پولیس کے ساتھ اپنی گاڑی تلاش کررہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کینیائی پولیس اتھارٹی نے واقعات مشکوک قرار دے دئے
ڈگلس کا کہنا تھا کہ کسی بچے کے اغوا کی بات غلط ہے، جو گاڑی لاپتہ ہوئی وہ میرا 28 سالہ بیٹا چلا رہا تھا۔
ڈگلس کا کہنا تھا کہ گاڑی نیروبی کے اندر لاپتہ ہوئی تھی اور ارشد شریف کو نیروبی سے 100 کلومیٹر دور مارا گیا، جبکہ گاڑی ساڑھے 9 بجے مل چکی تھی اور ارشد شریف پر فائرنگ رات 10 بجے کی گئی۔
چوری شدہ گاڑی کا پس منظر
ڈگلس وائنینا کاماؤ نامی شخص نے کینیائی خبر رساں ادارے “نیروبی نیوز کو لکھے گئے خط میں بتایا کہ کس طرح ان کے بیٹا ڈنکن کاماؤ وائنینا ان کی ایک سفید مرسڈیز بینز سپرنٹر 311، رجسٹریشن نمبر KDJ 700F کو لے کر فرار ہوا۔
ڈگلس نے بتایا کہ بیٹے اور گاڑی کے کہیں نہ ملنے پر وہ گھبرا گئے اور صورتحال اس وقت مزید خراب ہوگئی جب بیٹے نے ان کی فون کالز کو نظر انداز کیا۔
اس معاملے کی اطلاع انہوں نے مقدمہ نمبر او بی نمبر 70/23/10/2022 کے تحت پنگانی پولیس اسٹیشن میں شام 7 بجکر 20 منٹ پر دی۔ جس کے بعد انہیں ڈائریکٹوریٹ آف کریمنل انویسٹی گیشنز (DCI) کے دفتر میں بھیج دیا گیا۔
اسی دن، وہ پولیس سٹیشن کے دو افسران اور ایک ڈرائیور کے ساتھ رونگئی، کسریان روڈ کی طرف روانہ ہوئے جہاں گاڑی موجودگی کی اطلاع ملی تھی۔
ڈگلس نے کہا کہ ساڑھے نو بجے ان کے بیٹے نے انہیں فون کیا اور بتایا کہ وہ محفوظ ہے اور اپنی ماں اور بیوی سے ملنے جارہا ہے۔
”میں نے اس سے درخواست کی کہ وہ فوری طور پر ٹوٹل پیٹرول اسٹیشن، کسریئن پر آکر ہم سے ملیں، اور اس نے اس پر عمل کیا۔“
جیسے ہی ڈگلس کا بیٹا وہاں پہنچا پولیس افسران نے درخواست کی کہ وہ دونوں ان کے ساتھ واپس پنگانی تھانے چلیں، جہاں وہ رات 11 بجے پہنچے۔
ان کے مطابق، پولیس نے کہا کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ ان کے بیٹے اور گاڑی کو اگلے دن تک حراست میں لیں تاکہ بیان ریکارڈ کیا جاسکے۔
”اس کے بعد میرے بیٹے کو مقدمہ نمبر OB/90/23/10/2022 کے تحت ایف آئی آر بک میں درج کیا گیا جہاں میں شکایت کنندہ کے طور پر ظاہر ہوا“ چوبیس تاریخ بروز پیر ڈگلس پولیس اسٹیشن گئے اور ڈی سی آئی سے منسلک ایک افسر کے سامنے بیان ریکارڈ کرایا۔ اور ان سے الزامات کو ختم کرنے کی درخواست کی، لیکن ان کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، کیونکہ انہیں بتایا گیا کہ وہ اپنے افسرا سے مشاورت کے بعد ہی ایسا کریں گے۔
”تھوڑی دیر کے بعد پولیس افسر میرے پاس واپس آئے اور مجھے بتایا کہ میری درخواست کو مسترد کر دیا گیا ہے کیونکہ اس علاقے میں فائرنگ اور جانی نقصان ہوا ہے جہاں میری گاڑی کا سراغ لگایا جا رہا تھا۔“
”اس لیے، میرے بیٹے کو حراست میں لے لیا گیا، اور پولیس نے اگلے دن اسے عدالت میں پیش کرنے کے لیے چارج شیٹ تیار کی۔“
پچیس تاریخ بروز منگل وہ اس معاملے کو مکادارا عدالت میں لے گئے، ڈنکن کو عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں ان پر ”غیر قانونی طور پر گاڑی استعمال کرنے“ کا الزام لگایا گیا۔
دورانِ سماعت ڈگلس نے کہا کہ اس معاملے کو واپس لیا جائے کیونکہ وہ اس معاملے کو مزید آگے نہیں بڑھانا چاہتے۔
عدالت نے حکم دیا اور معاملہ واپس لے لیا گیا۔
لیکن جیسے ہی وہ باہر آئے گیٹ کے باہر انتظار کر رہے اہلکاروں نے اسے دوبارہ گرفتار کر لیا اور واپس پنگینی پولیس سٹیشن لے گئے۔
ڈگلس نے کہا کہ افسران نے پھر عدالت سے درخواست کی کہ وہ بیٹے کو حراست میں لے رہے ہیں کیونکہ وہ تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن جج نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ شکایت کنندہ کیس کی پیروی میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔
ڈگلس اور ان کے بیٹے کا ارشد شریف کے قتل کے بعد متعدد بار ذکر کیا گیا ہے۔ جنرل سروس یونٹ (جی ایس یو) سے منسلک افسروں نے ماگای روڈ پر موخرالذکر کو گولی مار کیا تھا۔
افسران نے رجسٹریشن نمبر KCG 200M والی گاڑی پر گولیاں برسا دیں جس کی نمبر پلیٹ اس گاڑی سے بہت مختلف تھے جس کی انہیں تلاش کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔
یہ انکشافات ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب حکومت پاکستان نے کینیا پر صحافی کے قتل کا الزام لگایا ہے۔
قبل ازیں، کینیائی پولیس اتھارٹی کی چیف پراکسیڈس ٹروری بھی گاڑی چوری والے بیان اور فائرنگ کو مشکوک قرار دے چکی ہیں۔
ایک کے علاوہ تمام رپورٹس موصول
سینئرصحافی ارشد شریف کےقتل کی تحقیقات جاری ہیں۔
پمز اسپتال کا کہنا ہے کہ ایک رپورٹ کےعلاوہ باقی تمام رپورٹس موصول ہوگئی ہیں۔
رپورٹس میں موت کی وجہ دائیں پھیپھڑے اور دماغ میں لگنے والی گولی کو قرار دیا گیا ہے۔
کینیا میں پوسٹ مارٹم کی پمز اسپتال کی رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے، پوسٹ مارٹم کے نشانات ارشد شریف کے جسم پر موجود ہیں۔
اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ آخری رپورٹ آنے میں مزید ایک ہفتہ لگ سکتا ہے۔
Comments are closed on this story.