عمران خان پر حملے میں ملزم نوید کے علاوہ کوئی ملوث نہیں، رانا ثناء اللہ
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ فسادی احتجاج کے نام پر سڑکیں بلاک کرکے بیٹھے ہیں، دس پندرہ لوگ گاڑی میں آتے ہیں، سڑک پر رکاوٹیں کھڑی کرکے ٹائر جلادیتے ہیں۔
رانا ثناء اللہ نے صوبائی پولیس پر احتجاجیوں کا ساتھ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ جب احتجاج میں پھنسے لوگ مظاہرین سے الجھتے ہیں تو پولیس ان کا تحفظ کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چند لوگ دو ٹائر جلا کر ویڈیو بناتے ہیں اور اوپر بھیجتے ہیں کہ جی دیکھیں عوام کا سمندر احتجاج کر رہا ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ پولیس نے بیرئیرز لگائے ہوئے ہیں کہ عوام ان کے قریب آکر انہیں بھگائے نہیں۔
رانا ثنا نے کہا کہ میں چیف جسٹس اور اسلام آباد، پنجاب و کے پی کے چیف جسٹس سے بھی درخواست کرتا ہوں۔ پھر یہ آپ کے پاس ریلیف لینے آئیں گے۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ صوبائی حکومت کی آئینی اور قانون ذمہ داری ہے کہ آمدو رفت کے رستے کھلے رکھیں اور اپنی حدود میں تمام شاہراہیں اور موٹرویز کھلوائیں۔ آج وزارت داخلہ نے تحریری طور پر خیبر پختونخوا اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں کو یہ ذمہ داری یاد دلائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج تیسرا دن ہے کروڑوں لوگ چند سو شرپسند احتجاجیوں کی وجہ سے رسوا ہورہے ہیں۔
انہوں نے صوبائی حکومتوں کو باور کرایا کہ آئینی ذمہ داری پوری کریں ورنہ اس کے آئینی نتائج ہوں گے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ میں عوام سے تمام اتحادی قائدین اور وزیراعظم کی جانب سے معذرت چاہتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس صورتِ حال کو زیادہ دیر چلنے نہیں دیں گے، ہمیں اندیشہ ہے عوام کا ردعمل شدید نہ ہوجائے، ایسا نہ ہو کہ پولیس فسادیوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوجائے۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ہوش کے ناخن نہ لئے تو انہیں چھپنے اور بھاگنے کی جگہ نہیں ملے گی، یہ صورتِ حال آج بھی دو تین جگہوں پر پیدا ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”عمران خان مجھے للکار کر کہتا تھا کہ رانا ثناء اللہ کہتا ہے میں یہ کردوں گا میں وہ کردوں گا، اسے پتا ہی نہیں کہ ہم نے کرنا کیا ہے۔“
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ حملہ آور سے تعلق رکھنے والے تمام افراد سے تحقیقات ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری کہتا ہے ایف آئی آر مدعی کی مرضی کی ہوتی ہے، کل کو کوئی چیف جسٹس کا نام لے تو کیا ایف آئی آر درج کرلی جائے گی۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ عمران خان کی اتنی اوقات نہیں کہ ایک ایف آئی آر درج کراسکے، میں دس سال پنجاب کا وزیر داخلہ رہا ، پنجاب میں جھوٹی ایف آئی کرانا کوئی بڑی بات نہیں، یہ جھوٹی ایف آئی آر بھی درج نہیں کرا سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ ”عمران خان نیازی نے ہمارے سینئیر صحافیوں سے جو بات منسوب کی ہے، میں اس کی بھرپور طریقے سے مذمت کرتا ہوں، صحافی کا کام ہے اس نے رپورٹ کرنی ہے۔“
رانا ثناء اللہ نے عمران خان کے ماضی کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہ ”آپ کہتے رہے ہیں جس طرح سے نبیوں کیلئے لوگ پیغام لے کر نکلتے تھے آپ میرے لئے نکلیں، آپ نے اس سے بھی زیادہ قابل اعتراض باتیں کی ہیں، آپ نے اپنی سیاسی اور اقتدار کی جدودجہد کو جہاد کا درجہ نہیں دیا؟ آپ نے مدینہ کی ریاست کا راگ نہیں الاپا؟“
وزیر داخلہ نے کہا کہ ”آپ نے چار سال فرح گوگی کی ریاست کو مدینہ کی ریاست قرار دیا۔“
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ وزیرآباد واقعے کا ملزم تمام تفتیش کے مطابق صرف نوید ہے اور وہ اسی طرح سے متاثر ہوکر آیا جس طرح سے ایک بندہ متاثر ہو کر آیا اور احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ کیا اور خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی، وہ لوگ بھی مذہبی انتہا پسندی سے متاثر تھے۔
انہوں نے کہا کہ نوید کے فون سے جو چیزیں ملیں ان سے ثابت ہوا کہ وہ بری طرح سے مذہبی انتہا پسندی سے متاثر تھا، وہ سعودی عرب میں رہا اور حملے سے تین دن پہلے اس نے بندوق خریدی، واقعے سے جڑے تمام لوگ گرفتار ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے خط چیف جسٹس آف پاکستان جو جاچکا ہے، ارشد شریف قتل حوالے سے کینیا سے واپس آنے والی ٹیم سے ملاقات ہوئی ہے، بہت سی چیزوں کی انکوائری ہونے والی ہے ، ٹیم کو کہا ہے کہ وہ دوبئی میں جائیں اور مزید تحقیقات کریں ، کینیا حکام سے کمیٹی نے جو ڈیٹا مانگا ہے اس کے لئے وزارت خارجہ کے ذریعے کینیا حکومت سے رجوع کیا جائے ۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ اب تک کی معلومات کے مطابق ارشد شریف کو قتل کیا گیا ہے ، ٹارگٹڈ قتل تھا ، وہاں کی پولیس نے جو موقف اختیار کیا تھا وہ ثابت نہیں ہوتا ،کینیا پولیس کے موقف میں شکوک و شبہات ہیں ، اس قتل میں دنوں بھائی وقار اور خرم کسی صورت باہر نہیں ہیں، ان کا ڈیٹا ، سرگرمیاں ، ارشد شریف کے وہاں جانے اور رہنے بارے میں بھی باریک بینی سے جائزہ ناگزیر ہے ۔
انہوں نے کہا کہ کینیا جانے والی دو رکنی ٹیم کی محنت اور لگن قابل تحسین ہے ، ٹیم نے کینیا میں ایک ایک چیز کا جائزہ لیکر اپنی فائنڈنگ دیں ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے جوڈیشل کمیشن بنانے کے لئے خط لکھا ہے ،چیف جسٹس جس کی مرضی ہے سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بنا دیں، ارشد شریف کی والدہ ہمارے لئے انتہائی قابل احترام ہیں ، ان کی رائے اور تجویز بھی اہمیت رکھتی ہے، ہم پرامید ہیں کہ ارشد شریف کے قاتلوں کی جلد شناخت ہوجائے گی ۔
Comments are closed on this story.