دیامر: نامعلوم افراد نے گرلز اسکول کو آگ لگا دی
دیامر کی تحصیل داریل کے علاقے سمیگال پائین میں موجود گرلز پرائمری اسکول کی عمارت کو نامعلوم افراد نے آگ لگا دی، جس کے باعث اسکول کا فرنیچر اور دیگر سامان جل کر خاکستر ہوگئے۔
مذکورہ اسکول میں ساٹھ کے قریب بچیاں زیر تعلیم ہیں اور ایک معلمہ اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہی تھیں۔
اسکول کی تعمیر بھی رواں سال مکمل ہوئی تھی اور درس تدریس کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری تھا۔
تاہم، گزشتہ شب بلڈنگ کو آگ نے اچانک اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری جائے وقوعہ پر پہنچی اور تحقیقات کا آغاز کیا۔
آج نیوز کو موصول فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کی ایک کاپی کے مطابق مقدمہ منگل کو گماری ڈیرل پولیس اسٹیشن میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 6 (دہشت گردی ایکٹ) اور 7 (دہشت گردی کی سزا) کے تحت درج کیا گیا۔ دفعہ 34 (متعدد افراد کی طرف سے مشترکہ نیت کو آگے بڑھانے کے لیے کیے گئے کام)، 341 (غلط پابندی کی سزا)، 427 (شرارت جس سے پچاس روپے کی رقم کو نقصان پہنچے) اور 431 (گھر کو تباہ کرنے کے ارادے سے آگ یا دھماکہ خیز مواد کے ذریعے فساد) وغیرہ پاکستان پینل کوڈ کو رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر ہیڈ ماسٹر رحمت غنی کی شکایت پر نامعلوم شرپسندوں کے خلاف درج کی گئی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ نامعلوم افراد نے رات کے اندھیرے میں اسکول کو آگ لگائی۔
اس حوالے سے چیف سیکریٹری محی الدین احمد وانی نے سوشل میڈیا پر جاری پیغام میں کہا کہ آج ضلع دیامر میں گرلز مڈل اسکول کو چند مجرموں نے جلا کر راکھ کر دیا جو انتہائی افسوسناک واقعہ ہے۔ لیکن ان شرپسندوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔
انہوں نے لکھا کہ ’ہماری لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ہمارے مذہب کی طرف سے دیا گیا ہے جو ایک ناقابل تنسیخ حق ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں محفوظ ہے۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں اور دہشت گردی کی ایسی کارروائیوں کے مرتکب افراد کی معافی نہیں ہو سکتی۔ ان کے پاس اس چیلنج سے نمٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔‘
چیف سیکریٹری نے لکھا کہ ’اس اسکول کو ایک ہفتے میں دوبارہ تعمیر کر کے فعال کر دیا جائے گا۔ میں اس مقصد کے لیے تمام وسائل کو متحرک کر رہا ہوں اور اس عمل کو تیز کرنے کے لیے تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کر رہا ہوں۔ میں بہترین افسروں اور انجینئروں کو بھیج رہا ہوں کہ وہ سائٹ پر جائیں اور اپنی بیٹیوں کے لیے ایک بڑا اور بہتر اسکول بنائیں۔‘
انہوں نے عزم کا اظہار کیا کہ ’ہم انشااللہ ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ یا تو ہم اپنی ڈیرل کی بیٹیوں کے ساتھ کھڑے ہوں یا پھر ہم سب سرکاری افسران گھر چلے جائیں۔‘
اگست 2018 میں سات اسکولوں کو نذر آتش کئے جانے کے بعد ڈیرل میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی۔ علاقے میں فوج بھی بلائی گئی تھی جس نے یہاں اسکول بھی بنائے۔
محکمہ تعلیم کے ذرائع نے بتایا کہ تحصیل میں کم از کم چھ سرکاری اسکول، جن میں دو مڈل اور چار پرائمری شامل ہیں، موجود ہیں۔ الگ سے، 39 ہوم اسکول چلائے جا رہے تھے جو بنیادی طور پر پری نرسری اسکول ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ علاقے میں خواندگی کی شرح دو فیصد ہے۔
آج نیوز نے ڈپٹی کمشنر دیامر فیاض احمد خان اور ایم پی اے رحمت خالق سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہوسکا۔
Comments are closed on this story.