Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مختلف شہروں میں جاری احتجاج ختم کرنے سے متعلق خبروں کی تردید کردی۔
ترجمان پنجاب حکومت اور رہنما پی ٹی آئی مسرت جمشید چیمہ کا کہنا ہے کہ پارٹی کی جانب سےایسی ہدایات جاری نہیں کی گئیں، راولپنڈی اوراسلام آباد کےاحتجاج جاری رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مارچ میں شرکت یقینی بنانے کے لئے دیگراضلاع میں احتجاج ختم کیا جا رہا ہے، حقیقی آزادی مارچ پوری قوت کے ساتھ شروع کرنے جارہے ہیں جسے اسلام آباد پہنچایا جائے گا۔
اس سے قبل ذرائع پی ٹی آئی کا کہنا تھا پارٹی چیئرمین عمران خان احتجاج ختم کرنے سے متعلق کچھ دیر میں باضابطہ ویڈیو بیان جاری کریں گے۔
پارٹی ذرائع نے بتایا تھا کہ راستوں کی بندش کے باعث شہریوں کو درپیش مشکلات کے باعث احتجاج ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا احتجاج: راولپنڈی میں دوسرے روز بھی ٹریفک متاثر، اسکول بند
واضح رہے کہ راولپنڈی میں مسلسل دوسرے روز بھی پی ٹی آئی مظاہرین کی جانب سے متعدد مقامات کو بلاک کرنے کے بعد جڑواں شہروں میں ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی۔
منگل کی صبح اسلام آباد تک رسائی مشکل ہونے کے بعد شہریوں کو اسلام آباد میں داخلے کے لیے متبادل راستے تلاش کرنے پر مجبور ہونا پڑا، راولپنڈی کے اسکول بھی دو دن کے لیے بند کر دیے گئے۔
دوسری جانب عمران خان پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر کے اندراج کے معاملے پر آئی جی پنجاب کے دفتر کے باہر وکلا نے احتجاج کیا اور نعرے بازی کی۔
انصاف یوتھ ونگ اور انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن (آئی ایس ایف) کی جانب سے احتجاج کی کال دی گئی تھی۔
اس کے علاوہ وزارت داخلہ بھی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹریز کو امن و امان کی صورتحال قائم رکھنے کے لئے خط لکھ چکا ہے۔
خط میں وزارت داخلہ کی جانب سے کہا گیا کہ امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنا صوبائی حکومت کی زمہ داری ہے، لہٰذا تمام بند شاہراوں سے مظاہرین کو فوری ہٹایا جائے۔
اسلام آباد: وزارت داخلہ نے امن و امان قائم رکھنے کے لئے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹریز کو خط لکھ دیا۔
خط میں وزارت داخلہ کی جانب سے یاد دہانی کرائی کہ امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنا صوبائی حکومت کی زمہ داری ہے، لہٰذا تمام بند شاہراوں سے مظاہرین کو فوری ہٹایا جائے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ موٹروے ایم 2 اور لنک روڈز چند مظاہرین نے بند رکھی ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات درپیش ہیں۔
وزارت داخلہ نے خط میں لکھا کہ پولیس صورتحال کو قابو کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، دراصل صوبائی حکومت اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔
سینئر رہنما پاکستان پیپلز پارٹی اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ ملزم نویز کا بیان دیکھ کر لگا کہ طوطا بول رہا ہے۔
لاہور میں چیئرمین تحریک انصاف اور اعتزاز احسن کے مابین ملاقات ہوئی جس دوران عمران خان کا کہنا تھا کہ اعتزاز احسن کو 17سال قبل پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔
عمران خان نے کہا کہ ہمارا اور اعتزاز احسن کا نظریہ ایک اور ان کا مستقبل ہمارے ساتھ ہے جب کہ اعتزاز میرے وکٹ کیپر ہوا کرتے تھے، یہ کرکٹ کو بخوبی جانتے ہیں۔
اس موقع پر پی پی رہنما نے کہا کہ جب فائرنگ ہوئی تو اس وقت ٹی وی دیکھ رہا تھا، ملزم نوید کے ویڈیو بیان پر میں نےکہا طوطا بول رہا ہے۔
دوسری جانب عمران خان کی عیادت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ اتنی تاخیر سے ایف آئی آر درج کرنے کا مطلب ہے کہ سوچ بچار کرکے واقعہ تحریر کیا گیا۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ واقعے کے 20 منٹ کے اندر اندر ملزم نوید نے ایک طوطے کی طرح بات کرنا شروع کر دی، اس نے کہا میں اکیلا ہوں اور کوئی نہیں ہے، جبکہ سوال کرنے والا ایسے بول رہا تھا کہ جیسے اس کو تجویز دے رہا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم نوید اور اس کا بیان ریکارڈ کرنے والے کی جان کو بھی خطرہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرے ہمسائے کو گولی لگے تو کیا میں پارٹی سے پوچھتا پھروں کہ پتا لینے جاؤں یا نہیں؟
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے ملزم نوید کے بیان کو جھوٹا قرار دے دیا۔
لاہور میں سینیئر صحافیوں سے گفتگو کے دوران عمران خان نے کہا کہ ملزم نوید کی حفاظت کی ذمہ داری پنجاب حکومت کی لگا دی ہے، نوید کا بیان جھوٹ پر مبنی ہے اور جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کا فوج سے کوئی مسئلہ نہیں، ملک کا انتظام چلانا ہے تو اقتدار کے ساتھ اختیار بھی ملنا چاہئے۔
عمران خان نے کہا کہ پتہ تھا کہ ماریں گے اس لیے پہلے ہی ویڈیو ریکارڈ کروا دی، جب ہم مضبوط ہونے لگے تو دوسرا منصوبہ بنایا گیا ، معلوم تھا کہ گوجرانوالہ یا گجرات میں حملہ ہوگا۔
سعد رضوی نے خود کو بڑے اچھے انداز سے ملزم نوید سے الگ کر لیا، عمران خان
عمران خان کا کہنا تھا کہ فوج مثبت انداز میں بہترین کردار ادا کر سکتی ہے، اگر ملک کا نظام چلانا ہے تو مینجمنٹ کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کو اختیار بھی دینا ہوگا، البتہ میری فوج کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں صرف احتساب کے معاملے پر مسئلہ ہوا۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سوال پر عمران خان نے جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک بلین ڈالر سوال ہے‘۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ کبھی اتحادی حکومت نہیں بننی چاہئیے ورنہ بلیک میل ہوتے رہیں گے، اور اگر دو تہائی اکثریت ہو تو وزیر اعظم مضبوط ہوتا ہے۔
عمران خان نے حملے کی ایف آئی آر کو چیلنج کرنے کا بھی اعلان کیا۔
دوسری جانب عمران خان نے ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ ”مضحکہ خیز ایف آئی آر کے معاملے پر میرے وکیل اپنا موقف دیں گے۔ میں نے ساری زندگی اپنے ملک کو ایک خوشحال فلاحی ریاست کے طور پر دیکھنے کا خواب دیکھا اور میری پوری جدوجہد اس خواب کو اپنی قوم کے لیے حقیقت بنانے کے لیے رہی ہے۔ آج قوم بیدار، سمجھدار اور اٹھ چکی ہے۔“
انہوں نے لکھا کہ ”انصاف، آزادی اور قومی خودمختاری کے میرے پیغام کی حمایت میں، جب ہم اپنے مقصد کے اتنے قریب ہوں تو کوئی خوف یا موت کا خطرہ میری جدوجہد کو نہیں روک سکتا۔ ہمارا پرامن احتجاج اور مذاکرات صرف پاکستان کی حقیقی آزادی کے لیے ہیں۔“
عمران خان نے مزید لکھا کہ ”پاکستان کے مستقبل کے لیے تحریک انصاف کے دروازے تمام جمہوریت پسند قوتوں کے لیے کھلے ہیں کہ وہ انصاف، قانون کی حکمرانی اور غیر ملکی غلامی سے آزادی کے لیے ہماری جدوجہد میں شامل ہوں، حقیقی آزادی کا ہمارا مقصد ہے۔“
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ فسادی احتجاج کے نام پر سڑکیں بلاک کرکے بیٹھے ہیں، دس پندرہ لوگ گاڑی میں آتے ہیں، سڑک پر رکاوٹیں کھڑی کرکے ٹائر جلادیتے ہیں۔
رانا ثناء اللہ نے صوبائی پولیس پر احتجاجیوں کا ساتھ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ جب احتجاج میں پھنسے لوگ مظاہرین سے الجھتے ہیں تو پولیس ان کا تحفظ کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چند لوگ دو ٹائر جلا کر ویڈیو بناتے ہیں اور اوپر بھیجتے ہیں کہ جی دیکھیں عوام کا سمندر احتجاج کر رہا ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ پولیس نے بیرئیرز لگائے ہوئے ہیں کہ عوام ان کے قریب آکر انہیں بھگائے نہیں۔
رانا ثنا نے کہا کہ میں چیف جسٹس اور اسلام آباد، پنجاب و کے پی کے چیف جسٹس سے بھی درخواست کرتا ہوں۔ پھر یہ آپ کے پاس ریلیف لینے آئیں گے۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ صوبائی حکومت کی آئینی اور قانون ذمہ داری ہے کہ آمدو رفت کے رستے کھلے رکھیں اور اپنی حدود میں تمام شاہراہیں اور موٹرویز کھلوائیں۔ آج وزارت داخلہ نے تحریری طور پر خیبر پختونخوا اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں کو یہ ذمہ داری یاد دلائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج تیسرا دن ہے کروڑوں لوگ چند سو شرپسند احتجاجیوں کی وجہ سے رسوا ہورہے ہیں۔
انہوں نے صوبائی حکومتوں کو باور کرایا کہ آئینی ذمہ داری پوری کریں ورنہ اس کے آئینی نتائج ہوں گے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ میں عوام سے تمام اتحادی قائدین اور وزیراعظم کی جانب سے معذرت چاہتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس صورتِ حال کو زیادہ دیر چلنے نہیں دیں گے، ہمیں اندیشہ ہے عوام کا ردعمل شدید نہ ہوجائے، ایسا نہ ہو کہ پولیس فسادیوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوجائے۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ہوش کے ناخن نہ لئے تو انہیں چھپنے اور بھاگنے کی جگہ نہیں ملے گی، یہ صورتِ حال آج بھی دو تین جگہوں پر پیدا ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”عمران خان مجھے للکار کر کہتا تھا کہ رانا ثناء اللہ کہتا ہے میں یہ کردوں گا میں وہ کردوں گا، اسے پتا ہی نہیں کہ ہم نے کرنا کیا ہے۔“
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ حملہ آور سے تعلق رکھنے والے تمام افراد سے تحقیقات ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری کہتا ہے ایف آئی آر مدعی کی مرضی کی ہوتی ہے، کل کو کوئی چیف جسٹس کا نام لے تو کیا ایف آئی آر درج کرلی جائے گی۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ عمران خان کی اتنی اوقات نہیں کہ ایک ایف آئی آر درج کراسکے، میں دس سال پنجاب کا وزیر داخلہ رہا ، پنجاب میں جھوٹی ایف آئی کرانا کوئی بڑی بات نہیں، یہ جھوٹی ایف آئی آر بھی درج نہیں کرا سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ ”عمران خان نیازی نے ہمارے سینئیر صحافیوں سے جو بات منسوب کی ہے، میں اس کی بھرپور طریقے سے مذمت کرتا ہوں، صحافی کا کام ہے اس نے رپورٹ کرنی ہے۔“
رانا ثناء اللہ نے عمران خان کے ماضی کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہ ”آپ کہتے رہے ہیں جس طرح سے نبیوں کیلئے لوگ پیغام لے کر نکلتے تھے آپ میرے لئے نکلیں، آپ نے اس سے بھی زیادہ قابل اعتراض باتیں کی ہیں، آپ نے اپنی سیاسی اور اقتدار کی جدودجہد کو جہاد کا درجہ نہیں دیا؟ آپ نے مدینہ کی ریاست کا راگ نہیں الاپا؟“
وزیر داخلہ نے کہا کہ ”آپ نے چار سال فرح گوگی کی ریاست کو مدینہ کی ریاست قرار دیا۔“
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ وزیرآباد واقعے کا ملزم تمام تفتیش کے مطابق صرف نوید ہے اور وہ اسی طرح سے متاثر ہوکر آیا جس طرح سے ایک بندہ متاثر ہو کر آیا اور احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ کیا اور خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی، وہ لوگ بھی مذہبی انتہا پسندی سے متاثر تھے۔
انہوں نے کہا کہ نوید کے فون سے جو چیزیں ملیں ان سے ثابت ہوا کہ وہ بری طرح سے مذہبی انتہا پسندی سے متاثر تھا، وہ سعودی عرب میں رہا اور حملے سے تین دن پہلے اس نے بندوق خریدی، واقعے سے جڑے تمام لوگ گرفتار ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے خط چیف جسٹس آف پاکستان جو جاچکا ہے، ارشد شریف قتل حوالے سے کینیا سے واپس آنے والی ٹیم سے ملاقات ہوئی ہے، بہت سی چیزوں کی انکوائری ہونے والی ہے ، ٹیم کو کہا ہے کہ وہ دوبئی میں جائیں اور مزید تحقیقات کریں ، کینیا حکام سے کمیٹی نے جو ڈیٹا مانگا ہے اس کے لئے وزارت خارجہ کے ذریعے کینیا حکومت سے رجوع کیا جائے ۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ اب تک کی معلومات کے مطابق ارشد شریف کو قتل کیا گیا ہے ، ٹارگٹڈ قتل تھا ، وہاں کی پولیس نے جو موقف اختیار کیا تھا وہ ثابت نہیں ہوتا ،کینیا پولیس کے موقف میں شکوک و شبہات ہیں ، اس قتل میں دنوں بھائی وقار اور خرم کسی صورت باہر نہیں ہیں، ان کا ڈیٹا ، سرگرمیاں ، ارشد شریف کے وہاں جانے اور رہنے بارے میں بھی باریک بینی سے جائزہ ناگزیر ہے ۔
انہوں نے کہا کہ کینیا جانے والی دو رکنی ٹیم کی محنت اور لگن قابل تحسین ہے ، ٹیم نے کینیا میں ایک ایک چیز کا جائزہ لیکر اپنی فائنڈنگ دیں ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے جوڈیشل کمیشن بنانے کے لئے خط لکھا ہے ،چیف جسٹس جس کی مرضی ہے سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بنا دیں، ارشد شریف کی والدہ ہمارے لئے انتہائی قابل احترام ہیں ، ان کی رائے اور تجویز بھی اہمیت رکھتی ہے، ہم پرامید ہیں کہ ارشد شریف کے قاتلوں کی جلد شناخت ہوجائے گی ۔
وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے سانحہ وزیرآباد میں سینئر صحافیوں کو عمران خان کی جانب سے ملوث کرنے کی کوشش کی شدید مذمت کردی۔
مریم اورنگزیب نے ایک بیان میں عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ فساد ، فتنہ اور انتشار نہ پھیلائیں، سیاست کریں صحافیوں کی جان خطرے میں نہ ڈالیں، سیاسی مخالفین کے ساتھ سیاسی مخالفت کریں ملک دشمنی تو نہ کریں ۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے تینوں صحافیوں کا نام لے کر ان کی زندگی خطرے میں ڈالی ہے جس کی شدید مذمت کرتے ہیں، پورا پاکستان فارن فنڈڈ فتنہ کے جھوٹ، بہتان اور فساد کا شکار ہے۔
مریم اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان آج تک اپنے خلاف کسی قانونی کیس میں پیش نہیں ہوئے، اقتدار میں آنے کے لئے پورے ملک کو آگ لگانا چاہتے ہیں۔
عمران خان پر فائرنگ کے مقدمے میں نامزد ملزم نوید کو تاحال گوجرانوالہ پولیس کے حوالے نہیں کیا گیا، ملزم نہ ہونے کے باعث ابھی تک گرفتاری بھی نہیں ڈالی گئی۔
کیس کی تفتیش گوجرانوالہ پولیس نے کرنی ہے اور ملزم نہ ہونے کی وجہ سے تفتیش میں مشکلات کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان حملے کی ایف آئی آر: آئی جی پنجاب نے عملدرآمد رپورٹ جمع کرا دی
ملزم کو حملے کے روز ہی موقع سے گرفتار کرلیا گیا تھا، لیکن پولیس کی جانب سے گرفتاری تاحال نہیں ڈالی گئی۔
تاحال یہ بھی معلوم نہیں کہ کیس کی تفتیش پولیس کرے گی، جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کرے گی یا کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان حملے کی ایف آئی آر لیک، تین ناموں میں سے کتنے شامل ہوئے
پنجاب حکومت کی جانب ے اعلان کیا گیا تھا کہ حملے کی انکوائری کیلئے جے آئی ٹی بنائی جائے گی، لیکن ابھی تک وہ بھی نہیں بنائی گئی۔
جے آئی ٹی بنانے کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے مقدمہ درج ہوتا ہے اور پھر جے آئی ٹی بنائی جاتی ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے دھاوے اور آئے روز احتجاج سے نمٹنے کیلئے گورنر ہاؤس پنجاب میں رینجرز تعینات کردی گئی۔
صوبائی دارالحکومت لاہور میں واقع گورنر ہاؤس کے اندر رینجرز نے ذمہ داریاں سنبھال لیں۔
یہ بھی پڑھیں: گورنر ہاؤس کے باہر احتجاج، مال روڈ بند
حکام کا کہنا ہے کہ گورنر ہاؤس کی جانب سے پنجاب حکومت اور ڈی جی رینجرز کو رینجرز تعیناتی کے حوالے سے خط لکھا تھا۔
گزشتہ روز بھی پاکستان تحریک اںصاف کے کارکنان نے پی ٹی آئی رہنماؤں کی قیادت میں گورنر ہاؤس پنجاب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔
پی ٹی آئی کارکنان نے گورنر ہاؤس کے باہر ٹائر جلائے اور نعرے بازی کی۔
آٸی جی پنجاب فیصل شاہکار کی جانب سے عمران خان پر حملے کے حوالے سے ایف آئی آر درج کرنے کے حکم پر عمل درآمد کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی گٸی۔
آئی جی پنجاب نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں رپورٹ جمع کرائی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے 24 گھنٹے میں عمران خنا پر حملے کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دئے جانے کے بعد پیر کی رات وزیر آباد پولیس نے ماعملے کی ایک عام سی ایف آئی آر درج کی جسے پی ٹی آئی کی جانب سے مسترد کردیا گیا۔
حالانکہ پولیس نے ایف آئی آر درج کرکے سیل کردی تھی لیکن اس کے باوجود اس کی کاپی لیک ہوگئی۔
ایف آئی آر کے مطابق مقدمہ سب انسپکٹر عامر شہزاد کی مدعیت میں درج کیا گیا، تھانا سٹی وزیرآباد میں درج ایف آئی آر میں 302، 324، 344 اور دہشتگردی کی دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں اور موقع سے گرفتار ملزم نوید کو نامزد کیا گیا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ نے کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) لاہور غلام محمود ڈوگر کی معطلی کے خلاف درخواست نا قابل سماعت قرار دے دی۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ کہتے ہیں غلام محمود کے جاری کردہ تمام احکامات اب غیر قانونی ہوں گے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مزمل اختر شبیر نے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کی درخواست پر سماعت کی جس میں معطلی کے اقدام کو چیلنج کیا گیا۔
سماعت کے آغاز پر ہی عدالت نے باور کرایا کہ یہ درخواست کس قانون کے تحت قابل سماعت ہے اور کس قانون کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔
درخواست گزار پولیس افسر کے وکیل نے بتایا کہ سی سی پی او لاہور کو دو وفاقی وزراء کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی پاداش میں معطل کرنے کے احکامات جاری کئے گئے۔ دو حکومتوں کے معاملے میں ایک سول سرونٹ کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ سی سی پی او لاہور کو تین دن میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی، احکامات پر عمل نہ ہونے پر معطل کیا گیا۔
عدالت نے غلام محمود ڈوگر کی معطلی کے خلاف درخواست مسترد کرتے ہوئے نمٹا دی۔
جس کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ نے اپنے بیان میں کہا کہ پولیس فورس اب غلام محمود ڈوگر کے احکامات ماننے کی پابند نہیں، سی سی پی او کو فوری طور پر چارج چھوڑنا ہوگا۔
اسلام آباد پولیس نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری حاصل کرلیے۔
ذرائع کے مطابق اسلام آباد پولیس نے غلام سرور خان، زلفی بخاری ، واثق قیوم اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری حاصل کیے ہیں۔
سابق وفاقی وزرا علی امین گنڈا پور اور پرویز خٹک اسلام آباد پولیس کو پہلے ہی مقدمات میں مطلوب ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد پولیس وفاقی حکومت کی اجازت سے موٹروے کھلواسکتی ہے،ایم 2 موٹروےکی بندش کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان سے جب سوال کیا گیا کہ آپ نے اپنے اوپر ہونے والے حملے کا الزام پاکستان کے موجودہ وزیراعظم، وزیر داخلہ اور ایک سینئیر انٹیلی جنس آفیشل پر عائد کیا، اس حوالے سے آپ کے پاس کیا ثبوت ہیں؟ تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں قتل کرنے کی سازش دو ماہ قبل تیار کی گئی تھی اور اس کی اطلاع انہیں ایجنسیوں سے پہلے ہی مل گئی تھی۔
امریکی نیوز چینل ”سی این این“ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں اینکر بیکی اینڈرسن کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’یہ سب تب شروع ہوا جب مجھے معزول کیا گیا اور اس کے بعد سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ میری پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی، لیکن اس کے بجائے جو ہوا وہ یہ تھا کہ ایک بڑا عوامی ردعمل سامنے آیا اور میری پارٹی کو بے پناہ حمایت حاصل ہوئی۔‘
عمران خان نے کہا کہ، ’میں عوام میں گیا اور 24 ستمبر کو اس (قاتلانہ کوشش) کا اعلان کیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’تب سے ”مجھے دوڑ سے باہر کرنے“ یا ”مجھے نااہل قرار دینے“ کی کوششیں جاری تھیں۔‘
عمران خان نے بتایا کہ ’دو ماہ قبل ایک ایجنسی نے ویڈیو بنائی جس میں مجھ پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا، پھر یہ صحافی وقار ستّی جو ان ایجنسیوں سے منسلک ہے، یہ ایک اور ویڈیو لے کر آیا کہ میں نے کس طرح مذہبی لوگوں کے جذبات مجروح کیے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پھر حکمراں جماعت کی وزیر اطلاعات اور سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم صفدر نے ٹیلی ویژن پر جا کر یہ کہا کہ میں نے کیسے عوام کے جذبات کو مشتعل کیا، پھر میں نے آن ائیر آکر کہا یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے، کیونکہ اگر انہوں نے مجھے قتل کر دیا […] یہ ثابت ہو جائے گا کہ ایک مذہبی جنونی تھا جس نے مجھے مار ڈالا۔‘
عمران خان نے مطالبہ کیا کہ ’اسی لیے میں نے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے […] میں نے تین لوگوں کے نام لیے ہیں اور وہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ اگر آزادانہ تحقیقات کرنی ہیں تو ان کے ساتھ ہی کرائی جائیں۔‘
عمران خان نے کہا، ’یاد رہے ساڑھے تین سال میں اقتدار میں تھا، میرے مختلف ایجنسیوں سے رابطے ہیں جو کام کرتی ہیں، مجھے معلومات کیسے ملیں؟ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اندر موجود کچھ بندوں سے، کیونکہ اس ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے زیادہ تر لوگ پریشان ہیں۔‘
دوران انٹرویو میزبان بیکی اینڈرسن باربارعمران خان سے ثبوتوں سے متعلق سوال کرتی رہیں تاہم چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی واضح جواب نہیں دیا گیا۔
قومی احتساب بیورو(نیب) نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی تحقیقات شروع کردیں۔
نیب نے کابینہ ڈویژن اور سرکاری توشہ خان سے عمران خان کے تحائف کا ریکارڈ حاصل کرلیا ۔
اس کے ساتھ ساتھ نیب نے کیس میں کابینہ ڈویژن، سرکاری توشہ خانہ کے افسران اور صحافی رانا ابرار خالد کا ابتدائی بیان قلمبند کرلیا ہے۔
ڈی جی نیب راولپنڈی عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی تحقیقات کی نگرانی کررہے ہیں۔
نیب ذرائع کے مطابق عمران خان کی جانب سے توشہ خانہ تحائف لیتے ہوئے اشیاء کے کم ریٹ لگائے جانے کا انکشاف ہوا، 3 گھڑیوں کی خریداری میں اپریزر رپورٹ بھی مشکوک قراردی گئی ہے جبکہ 3 قیمتی گھڑیوں، گراف اور رولیکس کی انڈرانوائسنگ کا انکشاف بھی ہوا ہے۔
نیب ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ عمران خان نے تحائف خریدتے ہوئے رقوم کی ادائیگی بھی کسی اور کے اکاؤنٹ سے کی۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لئے دائر کیا جانے والا توشہ خانہ ریفرنس حکمران جماعت کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف کو فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ڈکلیئر نہیں کیا۔
آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے موقف اپنایا تھا کہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے جب کہ سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو بھی آئین کی اسی شق کے تحت اسی نوعیت کے معاملے میں تاحیات نااہلی قرار دیا گیا تھا، ان پر اپنے بیٹے سے متوقع طور پر وصول نہ ہونے والی سزا گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کا الزام تھا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مظاہرین کی جانب سے متعدد مقامات کو بلاک کرنے کے بعد جڑواں شہروں میں ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی ہے۔
منگل کی صبح اسلام آباد تک رسائی مشکل ہونے کے بعد شہریوں کو اسلام آباد میں داخلے کے لیے متبادل راستے تلاش کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ راولپنڈی کے اسکول بھی دو دن کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی کارکنان کا ایم ٹو موٹر وے پر احتجاج تاحال جاری ہے، جس کے باعث موٹروے دونوں اطراف سے بند کردی گئی ہے، موٹروے بند ہونے سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
اسلام آباد ٹریفک پولیس کا یہ بھی کہنا تھا کہ موٹروے ایم ٹو سے اسلام آباد میں داخلہ بھی بند کر دیا گیا ہے۔
راولپنڈی کے شمس آباد میں مظاہرین کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں۔ حکام نے بتایا کہ مری روڈ کو دونوں اطراف سے بلاک کر دیا گیا ہے جس سے ٹریفک کی روانی میں شدید خلل پڑا۔
پی ٹی آئی کے رہنما پرویز خٹک نے گزشتہ روز میڈیا کو بتایا تھا کہ پارٹی کارکنان پیر کی رات سے اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستوں کو بند کرنا شروع کر دیں گے۔
اسلام آباد ٹریفک پولیس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ریڈ زون کے گرد ایوب چوک، ایکسپریس چوک اور نادرا چوک پر ڈائیورژن لگا دیا گیا ہے۔ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹریفک کو صرف مارگلہ روڈ سے کانسٹی ٹیوشن ایونیو کی طرف جانے کی اجازت ہے۔
پیر کو جاری کردہ نوٹیفکیشن میں راولپنڈی حکام نے یہ بھی کہا کہ شہر کے اسکول 8 اور 9 نومبر کو بند رہیں گے۔
پی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے کہ خیبر پختونخوا سے لانگ مارچ کا آغاز منگل سے ہوگا۔
خیال رہے کہ پی ٹی آئی قیادت نے وزیر آباد سے ہی لانگ مارچ کے دوبارہ آغاز کو بدھ تک مؤخر کردیا ہے۔ یہ فیصلہ عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب کی اہم ملاقات کے بعد سامنے آیا جس میں چوہدری پرویز الہٰی نے لانگ مارچ مؤخر کرنے کی کچھ ”ٹھوس“ وجوہات پی ٹی آئی چئیرمین کے سامنے رکھیں جنہیں قبول کرلیا گیا۔
پی ٹی آئی رہنما اورعمران خان کے انتہائی قریبی سمجھے جانے والے گلوکار سلمان احمد نے فوجی قیادت کے ساتھ پی ٹی آئی رابطوں کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان کی میجر جنرل فیصل نصیر سے بالمشافہ ملاقات ہوئی تھی۔
سوشل میڈیا پرمیجر جنرل فیصل نصیرکو براہ راست ویڈیو پیغام میں سلمان نے کہا کہ ، ”میرا پیغام میجر جنرل فیصل نصیر، جو پاکستان کی تمام داخلی اور خارجی سیکیورٹی کے ذمہ دار ہیں ان کے لیے ہے، جنرل صاحب آپ کی اور میری میٹنگ میں بات ہوئی تھی کہ سول ملٹری تعلقات میں جو خلیج آئی ہوئی ہے ہم نے وہ زخم بھرنے ہیں“۔
مزید پڑھیے:پی ٹی آئی کے ہدف پر موجود سینئر فوجی افسر کون ہے
سلمان احمد کے مطابق ، ”جنرل صاحب، ٹارچرہورہا ہے ہمارےملک کے اندر، ہمارے ملک کے جو سینیٹرز ہیں ان کی ویڈیوزریلیزکی گئی ہیں،اور 3 نومبر کو جو قاتلانہ حملہ ہواعمران خان جو پاکستان کے سب سے بڑے ہیرو ہیں ، آپ ملک کی بیرونی و اندرونی سیکیورٹی جانتے ہیں، آپ کو پتہ ہے یہ سب کچھ کون کررہا ہے، یہ سب کچھ کس نے پلان کیا تو بجائے اس کے کہ آپ خاموش رہیں، میں کہہ رہا ہوں آپ کا فرض بنتا ہے کہ آپ سامنے آئیں اور بتائیں ملک کو کہ کیا ہورہا ہے“۔
جنرل فیصل نصیرسے ملاقات کے دعویدار سلمان احمد نے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے مزید کہا کہ ،”آپ نے مجھے 2 گھنٹے دیے تھے اس میٹنگ میں اور آپ نےمیرا ہاتھ پکڑ کرکہا تھا کہ سلمان آپ اثاثہ ہیں اس ملک کے اور میں پوری کوشش کروں گا کہ ایک وِن وِن سچویشن بنانے کا تو اب وہ وقت آگیا ہے“۔
مزید پڑھیے: میجر(ر) خرم روکھڑی: پارٹی رہنماؤں کی لاعلمی سے بنیادی رکنیت کی معطلی تک
دوسری جانب پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ عمران خان پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ تین افراد کے خلاف درج کیا جائے۔ یہ افراد وزیراعظم شہباز شریف، وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ اور ایک اہم پوزیشن پر فائز ایک سینئر فوجی افسر ہیں۔
مزید پڑھیے“ عمران خان حملے کی ایف آئی آر لیک، تین ناموں میں سے کتنے شامل ہوئے
پنجاب حکومت اور پولیس کو شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے پر اعتراض نہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ سینئر فوجی افسر کا نام ایف آئی آر میں شامل نہ کیا جائے۔
لاہور: چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر کی نقل لیک ہوگئی ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر پیر کی شام مقدمہ درج ہونے کے بعد ایف آئی آر سیل کر دی گئی تھی تاہم اس کی نقل لیک ہو گئی اور پی ٹی آئی نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔
عمران خان پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر تھانہ سٹی وزیر آباد کے سب انسپیکٹر عامر شہزاد کی مدعیت میں انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 سمیت دفعہ 302، 324 اور 440 کے تحت درج کی گئی ہے۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق مقدمہ ملزم نوید کے خلاف قتل، اقدام قتل اور دہشتگردی کی دفعات کے تحت درج کیا گیا، ملزم نوید کی فائرنگ سے معظم جاں بحق جب کہ عمران خان سمیت 11 افراد زخمی ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ درج، ایف آئی آر سیل
ایف آئی آر میں عمران خان کے نامزد کردہ تین افراد میں سے کسی ایک کا نام بھی شامل نہیں کیا گیا۔
پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر کو سیل کر دیا گیا ہے، ایف آئی آر کو کل سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بعد ایف آئی آر کو عام ہونا تھا تاہم ایف آئی آر مقدمہ درج ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی لیک ہوگئی ہے۔
ترجمان پنجاب حکومت مسرت چیمہ نے لیک ایف آئی آر پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایف آئی آر کے نام پر وہ مذاق ہے جو اس قوم کے ساتھ کھیلا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں ان اشخاص کے نام ہی نہیں جن پر مدعی کو شک ہے، چئیرمین کی جانب سے ایف آئی آر زبیر نیازی نے جمع کروانی تھی لیکن یہ پولیس اہلکار کی مدعیت میں درج کی گئی۔
اس سے قبل مقدمہ درج ہونے پر پی ٹی آئی رہنما بشمول فواد چوہدری اور مسرت چیمہ اس ایف آئی آر کو کاغذ کا تُکڑا قرار دے چکے ہیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ عمران خان پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ تین افراد کے خلاف درج کیا جائے۔ یہ افراد وزیراعظم شہباز شریف، وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ اور ایک اہم پوزیشن پر فائز ایک سینئر فوجی افسر ہیں۔
پنجاب حکومت اور پولیس کو شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے پر اعتراض نہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ سینئر فوجی افسر کا نام ایف آئی آر میں شامل نہ کیا جائے۔
تھانہ وزیرآباد کی پولیس نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو بتایا تھا کہ اگروہ تیسرا نام نکال دیں تو فوری طور پر ایف آئی آر درج کر لی جائے گی۔ تاہم پی ٹی آئی اس کے لیے تیار نہیں ہوئی۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کی آج ہونے والی دو ملاقاتوں کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے، پرویز الہٰی کے مشورے سے عمران خان نے لانگ مارچ کو جمعرات تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا، وزیراعلیٰ پنجاب نے لانگ مارچ ملتوی کرنے کی ٹھوس وجہ بھی بتا دی۔
وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالہٰی آج دو بار اپنے بیٹے مونس الہٰی کے ہمراہ چیئرمین عمران خان سے ملاقات کیلئے ان کی رہائش گاہ زمان پارک گئے۔
ذرائع کے مطابق عمران خان نے پرویزالہٰی سے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں سانحہ وزیرآباد کی ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا، وزیراعلیٰ نے عمران خان کو باور کرایا کہ سپریم کورٹ نے چوبیس گھنٹے میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے، یہ حکم نہیں دیا کہ اس میں حساس ادارے کے افسر کا نام بھی شامل کیا جائے۔
ذرائع کے مطابق کپتان نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے پرویزالہٰی سے کہا ہے حملہ ہم پر ہوا ہے، ملزمان کو نامزد کرنا ہمارا قانونی حق ہے۔
مونس الہٰی نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے علاوہ کسی تیسری شخصیت کو نامزد کرنے کی بجائے نامعلوم ملزمان لکھ لیتے ہیں، تحقیقات میں کچھ شواہد ملے تو انہیں بعد ازاں نامزد کردیا جائے گا۔
مگر عمران خان نے وزیراعلیٰ پر زور دیا کہ وہ اتحادی ہونے کے ناطے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔
پرویزالہٰی کچھ وقت مانگ کر پہلی ملاقات سے روانہ ہوگئے۔
عمران خان نے قانونی ماہرین سے الگ ملاقات میں بھی مشاورت کی۔
ذرائع کے مطابق قانونی ماہرین کی رائے تھی کہ ایسی شخصیت کا نام قانونی طریقے سے شامل کیا تو جاسکتا ہے، مگر اس کا پراسس طویل ہے، اگر شواہد نہ ملے تو تمام کیس خراب ہو جائے گا۔
ذرائع کے مطابق دوسری ملاقات میں پرویزالہٰی اپنے موقف پر قائم رہے، انہوں نے واضح کردیا کہ اگر تحریک انصاف سپریم کورٹ سے تین نام شامل کرانے کا حکم لے لے تو وہ ایف آئی آر درج کرلیں گے، دوسری صورت میں یہ ناممکن ہے۔
دوسری ملاقات میں پرویزالہٰی نے چیئرمین کو مشورہ دیا کہ لانگ مارچ کیلئے ابھی بھی سخت سیکیورٹی خدشات موجود ہیں، اس لئے کچھ روز کیلئے لانگ مارچ ملتوی کردیا جائے۔
وزیراعلیٰ نے یہ بھی مشورہ دیا کہ جب تک تحقیقات میں پہلے واقعے میں ملوث حملہ آور گروپ یا ماسٹر مائنڈ کی درست نشاندہی نہیں ہوجاتی، اس وقت تک مزید حملوں کا خدشہ رہے گا۔
انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ اگر چند روز تک لانگ مارچ ملتوی کردیا جائے تو وہ سیکیورٹی کو از سر نو ترتیب دے سکتے ہیں۔ ایسے پولیس افسروں کو لانگ مارچ سیکورٹی کی ذمہ داری سونپی جائے گی، جن کا کردار شک و شبہے سے بالا تر ہو تاکہ پنجاب حکومت سیکورٹی کی مکمل ذمہ داری نبھا سکے۔
ذرائع کے مطابق پرویزالہٰی نے یہ بھی مشورہ دیا کہ آپ کی صحتیابی کے بعد لانگ مارچ کو براہ راست اسلام آباد میں دھرنے کی شکل میں شروع کیا جائے تو بہتر ہوگا۔
دوسری ملاقات کے اختتام پر عمران خان نے شاہ محمود قریشی سے کہا ہے کہ میڈیا کو آگاہ کردیں کہ لانگ مارچ جمعرات کو ہوگا۔