”داعش کی مہارانی“ کو 20 سال قید کی سزا
شام میں رہتے ہوئے خواتین پر مشتمل ایک داعشی بٹالین کی قیادت کرنے والی امریکی خاتون کو عدالت نے 20 سال قید کی سزا سنا دی ہے۔
امریکی ریاست کینساس سے تعلق رکھنے والی ایلیسن فلوک ایکرن کے اپنے بچوں نے عدالت میں ان پر بیتنے والے خوفناک حالات اور زیادتیوں کی تفصیل بتائی۔
بیالیس سالہ فلوک ایکرن نے عدالت میں اعتراف کیا کہ انہوں نے خطیبہ نصیبہ نامی ایک داعشی بٹالین کی قیادت کی جس میں تقریباً 100 خواتین اور نوجوان لڑکیاں شامل تھیں، جن میں سے کچھ کی عمریں 10 سال تک تھیں۔ جنہیں خودکار ہتھیاروں، دستی بموں کے استعمال اور خودکش بیلٹوں کو کو ڈیٹونیٹ کرنے کی ٹریننگ دی گئی تھی۔
فلوک ایکرن کی بیٹیوں میں سے ایک بٹالین کی اُن خواتین میں شامل تھیں جنہوں نے اس قسم کی تربیت حاصل کی تھی۔
فلوک کی بیٹی اور سب سے بڑے بیٹے، جو اب بالغ ہیں، دونوں نے جج پر زور دیا کہ وہ ان کی ماں کو سخت سے سخت سزا سنائیں۔
عدالت کو لکھے گئے خطوط میں دونوں نے اپنے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے کہا والدہ کی جانب سے ان کے ساتھ جسمانی اور جنسی زیادتی کی گئی۔ تاہم فلوک ایکرن نے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔
ایکرین کی بیٹی لیلا نے کہا کہ ”کنٹرول اور طاقت کی ہوس“ نے ان کی والدہ کو ایک دہشت گرد گروہ کی تلاش میں پوری فیملی کو آدھی دنیا پار گھسیٹنے پر مجبور کیا۔
لیلا نے کہا کہ ان کی ماں بچوں پر کی جانے والی زیادتیوں اور تشدد کو چھپانے میں ماہر ہوگئی تھیں۔ لیلا نے بتایا کہ ایک مرتبہ فلوک نے سزا کے طور پر ان کے چہرے پر ایک غیر معیاری جوؤں کی دوا ڈال دی اور جس سے ان کے چہرے پر چھالے پڑنے لگے اور آنکھیں جلنے لگیں۔
بعد میں فلوک نے اپنی بیٹیوں کے چہرے سے کیمیکل دھونے کی کوشش کی، لیکن لیلا ایکرین نے مزاحمت کی۔
انہوں نے کہا کہ“میں چاہتی تھی لوگ دیکھیں کہ وہ کس قسم کی عورت ہے۔ میں چاہتی تھی کہ یہ (کیمیکل) مجھے اندھا کر دے۔“
فلوک ایکرن کا امریکی نژاد خاتون ہوتے ہوئے داعش میں قیادت کے عہدے تک پہنچنا دہشت گردی کے مقدمات میں ان کی کہانی کو منفرد بناتا ہے۔
استغاثہ کا کہنا ہے کہ چھوٹی عمر سے ہی اپنے بچوں کے ساتھ زیادتی اس بات کی وضاحت میں مدد کرتی ہے کہ کس طرح وہ کنساس کے ایک 81 ایکڑ (33 ہیکٹر) فارم سے شام میں براستہ مصر اور لیبیا داعش کے ایک رہنما کے پاس پہنچیں۔
فرسٹ اسسٹنٹ یو ایس اٹارنی راج پاریکھ نے دورانِ سماعت کہا کہ فلوک ایکرن کے خاندان نے اسے ٹوپیکا کے ایک ایلیٹ پرائیویٹ اسکول میں بھیجا اور وہ ایک مستحکم گھر میں پلی بڑھیں۔
پاریکھ نے کہا کہ فلوک ایکرن کا خاندان متفق ہے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے، ایسی صورت حال کو تجربہ کار پراسیکیوٹر نے انتہائی نایاب قرار دیا۔
پاریکھ نے کہا، ”فلوک ایکرن کے پس منظر میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو ان کے طرز عمل کی وضاحت کر سکے، جو کہ جنونیت، طاقت، ہیرا پھیری، فریب پر مبنی ناقابل تسخیریت، اور انتہائی ظلم پر کارفرما تھا۔“
فلوک ایکرن کی جانب سے صرف دو سال کی سزا کی استدعا کی گئی تاکہ وہ اپنے چھوٹے بچوں کی پرورش کر سکے۔
انہوں نے ایک لمبی، جذباتی تقریر کے آغاز میں کہا کہ وہ اپنے کئے کی ذمہ داری لیتی ہیں۔
انہوں نے جج کو شام میں اپنے گزارے وقت کے بارے میں بتایا، اور ہفتہ وار پیزا ڈنر میں اپنے بچوں کی تصویریں دکھاتے ہوئے کہا، ”ہم نے صرف ایک عام زندگی گزاری۔“
انہوں نے بچوں پر تشدد اور بدسلوکی کے الزامات کی تردید کی، اور اپنے سب سے بڑے بیٹے پر الزام لگایا کہ وہ بیٹی کو ان الزامات کے حوالے سے گمراہ کر رہا ہے۔
انہوں نے ”خطیبہ نصیبہ“ کو خواتین کے لیے ایک کمیونٹی سنٹر سے تشبیہہ دی جس میں سیلف ڈیفنس کی کلاسز کی ایک سیریز شامل ہوگئی تھی، کیونکہ یہ واضح ہو گیا تھا کہ رقہ شہر جہاں وہ رہتی تھیں داعش کا گڑھ تھا اور انہیں حملے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ خواتین اور لڑکیوں کو خودکش بیلٹ اور خودکار ہتھیاروں کا استعمال کرنا سکھایا گیا تھا، لیکن اسے جنگی علاقے میں حادثات سے بچنے کے لیے حفاظتی تربیت کے طور پر پیش کیا گیا جہاں اس طرح کے ہتھیار عام تھے۔
تاہم، جج لیونی برنکیما نے واضح کیا کہ وہ فلوک ایکرن کے جواز سے متاثر نہیں۔
ایک موقع پر فلوک ایکرن نے دشمن فوجیوں کی طرف سے عصمت دری کے امکان کے خلاف خواتین کو اپنا دفاع کرنے کی ضرورت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ”جنسی تشدد کسی بھی حالت میں ٹھیک نہیں ہے۔“
جج برنکیما نے فلوک ایکرن سے بیٹی کے اس الزام کے بارے میں پوچھا کہ کیا اسے داعش کے ایک دہشتگرد سے شادی کرنے پر مجبور کیا گیا تھا جس نے 13 سال کی عمر میں اس کی عصمت دری کی تھی؟
جس پر ایکرن نے کہا کہ ”وہ 14 سال کی عمر تک پہنچے میں سے چند ہفتے دور تھی۔ یہ اس کا فیصلہ تھا، میں نے اسے کبھی مجبور نہیں کیا۔“
پاریکھ نے فلوک ایکرن کو ”داعش کی مہارانی“ کے طور پر بیان کیا جس کے متعدد شوہر داعش میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے، اور ان میں سے اکثر لڑائی میں مارے گئے۔
پاریکھ نے کہا کہ داعش کے اندر بھی جو لوگ فلوک ایکرن کو جانتے تھے انہوں نے اس کی بنیاد پرستی کو ”آف دی چارٹ“ کے طور پر بیان کیا اور دیگر دہشت گرد گروہوں نے اس کے خواتین بٹالین بنانے کے منصوبے کو اپنانے سے انکار کردیا تھا۔
پاریکھ نے کہا کہ فلوک ایکرین کے اقدامات نے ”انسانیت کے تاریک ترین پہلو میں ایک نئی جہت کا اضافہ کیا۔“
بٹالین کی تشکیل کے علاوہ، فلوک ایکرن نے اعتراف کیا کہ لیبیا میں رہتے ہوئے انہوں نے بن غازی میں 2012 کے دہشت گرد حملے کے بعد امریکی سفارتی تنصیبات سے لی گئی دستاویزات کا ترجمہ، جائزہ اور خلاصہ کرنے میں مدد کی۔
Comments are closed on this story.