لاہور جا کر شادی کرنیوالی لڑکی کا کیس، ماہر نفسیات عدالت میں پھٹ پڑیں
لاہور جاکرپسند کی شادی کرنے والی بچی کے کیس میں معائنہ کرنے والی ماہر نفسیات نے صوبائی وزیر ترقی نسواں شہلا رضا پر قتل کی دھمکیاں دیے جانے کا الزام عائد کردیا۔
سندھ ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران لڑکی کا معائنہ کرنے والی ماہرنفسیات فاطمہ ریاض کا کہنا تھا کہ مجھے معائنہ کرنے کے لیے کہا گیا تھا لیکن پی پی رہنما شہلا رضا کی طرف سے مسلسل قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔
ڈاکٹر فاطمہ ریاض نے الزام عائد کیا کہ مجھے ذہنی طور پر بیمار کرنے کیلئے ادویات دی گئیں۔ انہوں نے سربمہر لفافہ میں اپنی میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کی۔
سندھ ہائیکورٹ نے سیکرٹری سے کہا کہ اگرڈاکٹرکو دھمکیاں مل رہی ہیں تو کسی اور کی ذمہ داری لگاتے۔
لڑکی کے والد کے وکیل نے عدالت سے سینئرز ڈاکٹرز پرمشتمل میڈیکل بورڈ بنانے کی استدعا کی۔
کیس کی سماعت کے بعد ڈاکٹرفاطمہ ریاض نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ انہیں چائے میں نشہ آور اشیاء گھول کر پلائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ایف سی پی ایس کی تصدیق شدہ ماہرِنفسیات ہوں مگر مجھےاتنا زیادہ نشہ پلادیا گیا کہ عجیب وغریب باتیں کر رہی ہوں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ شک کی بنیاد پر اپنا ٹیسٹ کروایا تھا جس سے ثابت ہوا کہ مجھے بہت زیادہ نشہ دیا گیا۔
ڈاکٹر فاطمہ نےدعا زہرہ کے والدین کی جانب سے تحفے میں دیا گیا جوڑا بھی عدالت میں واپس کیا۔
میڈیا نمائندوں کے استفسارپر ان کا کہنا تھا کہ دعا زہرہ کے والدین نے مجھے سوٹ دیا تھا کہ ہم سید ہیں اس لیے کوئی پہلی بار ہمارے گھرآتا ہے تو اسےسوٹ اور پیسے دیتے ہیں، جو میں نے اس وقت ان کے مذہبی جذبات کے پیش نظررکھ لیے تھے اور آج عدالت کو واپس کردیے۔
دوسری جانب دعا زہرا کیس میں ماہر نفسیات ڈاکٹر فاطمہ ریاض کے مبینہ الزامات پر شہلا رضا کا وضاحتی ویڈیو بیان سامنے آگیا۔
انہوں نے موقف اپنایا کہ میں ذاتی طور پر ڈاکٹر فاطمہ کو نہیں جانتی، مجھے ان الزامات کا علم میڈیا کے ذریعے ہوا۔
انہوں نے کہا کہ خبر چلتے دیکھا تومیں نے پھر موبائل فون کا ریکارڈ چیک کیا تو معلوم ہوا کہ خاتون ڈاکٹر نے مجھے دو مختلف نمبروں سے کچھ میسیجز اور کالز کیے ہوئے تھے جبکہ خاتون کا نمبر بھی سیو نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ خاتون ڈاکٹر نے مجھ پر الزام لگایا کہ میں نے چائلڈ پروٹیکشن میں اس کو چائے میں زہر گھول کے پلایا تھا، چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کا میری وزارت سے کوئی تعلق نہیں، خاتون ڈاکٹر کو شائد علم نہیں کہ عدالت کی جانب سے متعلقہ بچی سے ہر قسم کی ملاقات پر پابندی عائد ہے۔
پس منظر
نوعمر لڑکی کی اپریل کے وسط میں کراچی میں اپنے گھر سے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملی تھی۔ بعد ازاں پولیس کو اس کا سراغ بہاولنگرسے ملا اورعلم ہوا کہ اس کی شادی 21 سالہ ظہیر احمد سے ہوچکی ہے، جس سے اس کی ملاقات مقبول آن لائن گیم PUBG کھیلتے ہوئے ہوئی تھی۔
اس جوڑے کو سندھ ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا، جہاں عدالت نے فیصلہ دیا کہ نوعمر لڑکی کو شیلٹر ہوم میں بھیجنے سے پہلے وہ جس کے ساتھ چاہے رہ سکتی ہے۔ جس کے بعد لڑکی کے والدین نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا۔
سپریم کورٹ نے مدعیان کو متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کی ہدایت کے بعد کیس نمٹا دیا تھا۔
Comments are closed on this story.