Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

ارشد شریف قتل: خرم اور وقار کون؟ رانا ثناء اللہ نے بتا دیا

ارشد شریف کے قتل میں کینیائی پولیس کی جانب سے دو نام سامنے آئے ہیں۔
اپ ڈیٹ 26 اکتوبر 2022 10:08pm
فائل فوٹو
فائل فوٹو

وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ارشد شریف کے قتل میں سامنے آنے والے دو نام خرم احمد اور وقار احمد کے بارے میں اہم انکشاف کیا ہے۔

آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں میزبان عاصمہ شیرازی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ خرم اور وقار کا اسمگلنگ کے بزنس سے تعلق ہے، یہ کمپنی ایک نجی چینل کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”خرم احمد اور وقار احمد جو ہیں، ہوسکتا ہے کہ ان کا ایک ایسی نجی کمپنی جو وہاں پر بزنس میں انوالو ہے اور اس کا بزنس بھی جس طرح کا وہ ملک ہے، وہاں پہ اسی طرح کا ہے اسمگلنگ ٹائپ ہی۔ وہ کمپنی ایک بڑی شخصیت ہے جس کا ایک چینل سے بھی تعلق ہے، اس کی ملکیت بتائی جارہی ہے۔“

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ “ اگر یہ اس کمپنی کے ملازم ہیں اور اس گاڑی سے فائر ہوا ہے اور یہ دونوں محفوظ رہے ہیں تو پھر یہ چیزیں کسی اور طرف نکل جائیں گی۔“

وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ ”وہ دبئی سے کینیا ہی کیوں گئے، وہ کسی اور ملک کیوں نہیں چلے گئے، تو یہ ساری چیزیں بہت زیادہ ابہام کرئیٹ کر رہی ہیں، اس ابہام کو انہوں نے اپنی سیاست کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔“

’ارشد شریف کو دبئی کیوں بھیجا گیا؟‘

رانا ثناء اللہ نے سوال اٹھایا کہ ارشد شریف کو دبئی کیوں بھیجا گیا، انہیں کینیا جانے کی کیوں ضرورت پڑی۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ کیا یہ یہی چاہتے تھے کہ افسوسناک واقعہ پر لانگ مارچ کی بنیاد رکھیں، ان کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے، عمران خان نے مشکل وقت میں ارشد شریف کا ساتھ نہیں دیا اور اب یہ مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔

ارشد شریف کو ڈی پورٹ کرنے کیلئے دبئی کو خط؟

ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ دبئی حکومت کو ارشد شریف کو ڈی پورٹ کروانے کیلئے خط لکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ دبئی کو ہماری طرف سے کوئی اشارہ تک نہیں دیا گیا، وہاں تو لوگ دو دو سال تک بیٹھے رہتے ہیں، مجھے نہیں معلوم ارشد پر دباؤ ڈال کر انہیں کیوں کینیا بھیجا گیا۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ”ان (ارشد شریف) کی ایک ریٹنگ تھی ایک مقام تھا، جو چینل بزنس کرتا رہا ان کی ریٹنگ کے اوپر اور ان کے نام کے اوپر، سارا دبئی ان کا ہے وہ بھی وہاں پر ان کیلئے جگہ نہیں پیدا کرسکے، وہ بھی ان کو وہاں سپورٹ نہیں کرسکے۔“

وزیر داخلہ نے کہا کہ “ اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے وہاں سپورٹ کیا ہی نہیں، یہ ان کا مجرمانہ فعل ہے جس کے اوپر پردہ ڈالنے کیلئے یہ دوسروں کے اوپر الزام لگا رہے ہیں کہ فلاں نے یہ کردیا فلاں کی وجہ سے گئے۔“

انہوں نے کہا کہ ”پہلے یہ تو بتائیں کہ جن کے ساتھ ارشد شریف مرحوم کی بنتی نہیں تھی، ان کو تو آپ چھوڑیں نا کہ وہ مدد کرتے یا نہ کرتے یا مخالفت کرتے۔ آپ بتائیں ناآپ نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ آپ نے اس کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟“

ارشد شریف پر مقدمات

اس سوال کے جواب میں کہ کیا واقعی ارشد شریف کے خلاف 16 ایف آئی آرز درج تھیں؟ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے مکمل تحفظ حاصل تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ”ارشد شریف پر جو مقدمہ درج ہوا تھا وہ ان کے وی لاگ ایک انہوں نے جو پروگرام کیا اس میں جو انہوں نے گفتگو کی، اس کے اوپر ٹھیک ہے ایک مؤقف ہوسکتا ہے، ایک بات میری نظر میں درست ہے آپ کی نظر میں درست نہیں ہے۔ لیکن جس طرح سے اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کو ریلیف دیا جس طرح سے ان کو پروٹیکشن دی ، میرا نہیں خیال کہ ان تک اس قسم کی کوئی صورتحال درپیش ہوسکتی تھی۔ انہیں پورا تحفظ حاصل تھا۔ میری ان سے اس دوران ایک دو مرتبہ بات ہوئی ہے وہ بڑے مطئن تھے۔“

’عمران خان سے تفتیش‘

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ارشد شریف کے مؤقف کے سب سے بڑے بینفشری عمران خان تھے، انہوں نے ارشد شریف کو لا وارث چھوڑا اور اب یہ دوسروں پر الزام لگا رہے ہیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ”اسے (ارشد شریف) کو پنجاب میں یا کے پی کے میں مکمل سیکیورٹی کے ساتھ جگہ دے دیتے کہ جی آپ یہاں رہیں اور اپنا کام بھی بے شک کریں، اور آپ کی یہاں پر پوری سیکیورٹی ہوگی۔ اگر بقول ان کے اُن کو ایسی کوئی صورتحال درپیش تھی کہ ان کو سیکیورٹی تھریٹ تھا، انہیں باہر بھیجنے کی ضرورت تھی، اور پھر باہر بھیجا تو انہوں نے جو مؤقف اختیار کئے رکھا، بھلے وہ ان کا اپنا مؤقف تھا، وہ بڑے دلیر آدمی تھے یعنی وہ اپنی منشا اور مرضی کی بات کرنے والے انسان تھے، لیکن ان کے اس مؤقف کی وجہ سے سب سے بڑا بینفشری عمران خان تھا۔ وہ تو پی ٹی آئی تھی۔“

انہوں نے مزید کہا کہ ”انہوں نے جس طرح سے نیب میں ہمارے ایک ایک کیس کو جس طرح سے اینالائز کیا جس طرح سے ثابت کیا، جس طرح سے انہوں نے اس کی کمپین جو ہمارے خلاف تھی اس کو سپورٹ کیا۔ وہ جو اپنے ہے چور شہزاد اکبر، میں جب بھی کبھی گیا ہوں تو وہ ارشد شریف صاحب کے دفتر میں موجود ہوتا تھا۔ تو بھئی اس کے اوپر اس مؤقف کو اختیار کرنے کی وجہ سے جو ارشد شریف نے بطور ایک اینکر اختیار کیا، اگر ان کے اوپر کوئی مشکل وقت آگیا تھا تو بھئی آپ کو تو ان کی حفاظت یہیں پر کرنی چاہئے تھی۔ اگر اسے باہر بھیجنا تھا تو اسے وہاں پر لُک آفٹر کرتے۔ یہ کیا ہوا کہ دبئی میں اس کیلئے جگہ تنگ ہوگئی، اگر یہ اس کے ساتھ کھڑے ہوتے تو اس کیلئے جگہ تنگ ہوسکتی تھی؟ اگر انہیں دبئی سے جانا پڑا تو کینیا جانے کی ضرورت تھی، انہیں کسی یورپی ملک کا ویزا لے کر دیتے۔ اس کو لاوارث چھوڑا اس کا مشکل وقت میں کوئی ساتھ نہیں دیا، اب جو ہے یہ ٹسوے بہا رہے ہیں، اب یہ مگر مچھ کے آنسو بہا رہے کہ جی ہمیں یہ بھی پتا تھا ہمیں وہ بھی پتا تھا، یہ سب جھوٹی کہانی ہے۔“

انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے پشاور میں سیدھا ادارے پر الزام لگا دیا کہ ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے، البتہ کینیا کی پولیس کہہ چکی ہے ان سے غلطی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ایک آدمی ادارے پر الزام لگائے اور وہ خود کہے کہ میں نے ارشد شریف کو باہر جانے کا کہا تو اسے شامل تفتیش کیا جائے گا۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ارشد شریف کینیا کیوں گئے، اس کی تحقیقات کیلئے ہمارے افسران کینیا جا چکے ہیں، اگر اس گاڑی سے بھی فائر ہوا ہے تو پھر بھی ارشد شریف بے گناہ تھا۔

Rana Sanaullah

arshad sharif death

Waqar Ahmed

Khurram Ahmed

Kenya Police